Maktaba Wahhabi

156 - 467
حجاز میں شاہ عبدالعزیز کی آمد اور مولانا ابو الحسن الندوی کا تجزیہ مولانا الشیخ ابو الحسن الندوی لکھتے ہیں ’’اس بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں مرکز اسلام حجاز اور حرمین شریفین کے حالات میں کچھ ایسی ابتری واقع ہوئی کہ یہ بلاد مقدسہ بھی(اشراف مکہ بلخصوص شریف حسین کے دور حکومت میں) برطانوی اثرات کے تابع ہو گئے۔ امن مفقود ہو گیا، جہالت اور ناخواندگی نےہر طرف اپنا سایہ پھیلایا اور عقائد میں فساد آگیا۔ جاہلیت کے دور کی بعض رسمیں دوبارہ رواج پا گئیں۔ اقتصادی حالت زبوں تھی۔ فقر و فاقہ، بد امنی اور طوائف الملوکی کا ہر طرف دور دورہ تھا جس کے سبب لوگوں کا حج اور اس کے ارکان ادا کرنا ایک جہاد اور کسی ہفت خوان کو سرکرنے سے کم نہ تھا۔ بد امنی کے ساتھ راستوں کی دشواریاں، پانی کی قلت و نایابی، حجاج کے قافلوں کا دن دھاڑے لٹنا، اور زادہ راہ کا نہ ملنا زبان زد خلائق تھا۔ مگر حکومت بے بس تھی اور اس کا نظم و نسق مفلوج تھا۔ حاجی حج کے لیے گھر سے نکلتے وقت ایسا محسوس کرتے تھے گویا وہ محاذ جنگ پر جارہے ہیں اس ماحول میں اولاد کو اس طرح کی وصیت کر جاتے تھے جیسے لڑائی پر جانے والا کرتا ہے۔ ایسے ماحول میں، اور فقرو جہالت،دنیا سے بے خبری و بے تعلقی، اور بدحالی کی فضا میں ایک نسل جوان ہو گئی۔ بالا خر خدائے حکیم و رحیم کی قدرت حرکت میں آگئی۔ اس نے آل سعود کو اصلاح احوال،قیام امن،سڑکوں کی تعمیر، ملک کی خوشحالی، عوام کی تعلیم، ایک مضبوط حکومت، اور بیدار مغز انتظامیہ کے قیام کے لیے کھڑا کیا۔ حجاز میں امن و امان قائم
Flag Counter