Maktaba Wahhabi

161 - 467
1806ء میں صلح ہوئی۔ اور وہ مکہ مکرمہ میں داخل ہو گئے۔‘‘ ابن بشر اپنی کتاب عنوان المجد نی تاریخ نجد میں لکھتے ہیں ’’سعودی مملکت کے پہلے دور میں سعودیوں نے اشراف سے دوستی اور بھائی بندی کرنی چاہی۔ لیکن جب اشراف نے دیکھا کہ سعودیوں کو کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں تو انہوں نے بعض کی وجہ سے دشمنی شروع کر دی۔ شریف مکہ احمد بن سعید نے شہزادہ محمد بن سعود اور شیخ محمد بن عبدالوہاب کو پیغامات بھیجے اور امن کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی عالم بھیج دو تاکہ آل سعود کے اصلاحی دعوت کے بارے میں ان کو بتائے۔‘‘ انہوں نے شیخ عبدالعزیز بن عبداللہ الحصین کو بھیجا۔ لیکن اشراف نے اپنی روایت کے مطابق اس کے ساتھ دشمنی کا مظاہرہ کیا۔ یہ شریف مکہ غالب کے وقت تک رہا۔ سعودی کے پہلے دور کے سربراہ امام عبدالعزیز نے اپنے بیٹے سعود کو بھیجا تاکہ وہ شریف غالب سے مقابلہ کر سکے اس نے کامیابی حاصل کی اور مکہ مکرمہ میں داخل ہو گیا۔ اس کی جگہ شریف عبدالمعین بن مساعد کو امیر مقرر کر دیا۔ موجودہ سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن آل سعود نے نے جب حجاز کےطرف جانے کا فیصلہ کیا تو اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہاں امن امان کی حالت بہت ابتر تھی اور ہر طرف رہزنوں کا دور دورہ تھا۔ کویت کے کانفرنس میں شاہ عبدالعزیز نے شرکت کر کے یہ ثابت کیا تھا کہ وہ امن پسند شخصیت ہیں انہوں نے سیاسی محاذ پر کامیابی حاصل کر کے مسلمانوں کی رائے عامہ کو باور کرایا تھا کہ وہ عالم اسلام کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف
Flag Counter