Maktaba Wahhabi

240 - 467
دیا۔ دوسرے مجرم کو شہزادہ سعود کے گارڈ خیر اللہ نے مارا۔ تیسرے پر بھی فائرنگ ہوئی لیکن وہ بچ گیا۔ اس کا نام علی تھا۔ وہ گرفتار ہوا اس نے بیان دیا کہ وہ یمن کے رہنے والے ہیں۔ تھوڑی دیر تک شاہ عبدالعزیز نے طواف روک دی۔ تاکہ وہ اندازہ کر سکیں کہ وہ تین ہی تھے یا چوتھا بھی تھا۔ طواف کی تکمیل کے لئے ایسا رویہ رکھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اس سال یمن کے دس ہزار حاجی تھے۔ نجد کے حجاج کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔ شاہ عبدالعزیز جلد از جلد طواف مکمل کرکے منیٰ پہنچنا چاہتے تھے۔ تاکہ وہ منیٰ میں منعقد اجلاس میں شرکت کرسکیں۔ اور حجاج میں کسی منفی پروپیگنڈہ کا اثر نہ ہو۔ کیونکہ یہ خبر پھیل گئی تھی کہ شاہ عبدالعزیز پر قاتلہ نہ حملہ ہوا ہے۔ بادشاہ کو عید ملنے کے لیے جو بھی آتا وہ انہیں قاتلانہ حملے میں محفوظ رہنے پر مبارک باد پیش کرتا۔ اسی محفل کے حاضرین میں یمن کے عبداللہ ابن الوزیر بھی تھے۔ اور افغانستا ن کے سابق شاہ امان اللہ خان بھی تھے۔ ان کے علاوہ اہم شخصیات اور نجد کے قبائلی سردار بھی تھے۔ حجاز کےاہم اور بڑے بڑے لوگ تھے وہ ہر آنے والے سے خندہ پیشانی سے ملاقات کرتے۔ اور نجدی سرداروں کو کہتے کہ یمن کے کسی حاجی پر کوئی زیادتی نہ کی جائے۔ خیر الدین الزر کلی لکھتے ہیں کہ ’’ میں اس منظر کو کبھی فراموش نہیں کرسکتا کہ جب میں شاہ عبدالعزیز پر سلام اور عید کی مبارک باد پیش کرنے کے لیے پہنچا تو ان کے ایک بہت ہی قریبی
Flag Counter