Maktaba Wahhabi

50 - 467
راستے میں جو مشکلات در پیش تھیں ان پر قابو پانے کے لیے از سر نو جدو جہد شروع ہوئی۔ قصیم اور دوسرے علاقوں کے لوگ حمایت کے لیے آگے بڑھے۔ ابن رشید یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لیے اس نے دوبارہ لڑائی شروع کر دی مگر اسے کامیابی نہ ہوئی۔ اور دونوں کے درمیان صلح کی باتیں ہونے لگیں۔ جن میں ابن رشید کےنمائندے کی رہائی شامل تھی۔ اس واقعہ کو کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ ابن رشید اور قصیم والوں کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی جو ملید اء نامی جگہ پر ہوئی۔ شروع میں قصیم والوں کا پلہ بھاری رہا۔ اس دوران امام عبدالرحمن اہل قصیم کی مدد کے لیے نکلے۔ وہ راستے میں ہی تھے کہ ان کو ابن رشید کی کامیابی کی اطلاع ملی۔ وہ ریاض واپس آگئے اور اپنےخاندان کے افراد کو نکال کر الاحساء کی طرف چلے گئے وہ سمجھ گئے تھے کہ ابن رشید کی طاقت کا مقابلہ کرنا مشکل تھا کیونکہ ابن رشید نہ صرف جبل شمرپر حکمرانی کر رہا تھا بلکہ نجد کے بیشتر حصہ پر اس کا تسلط تھا۔ جب امام عبدالرحمن الاحساء پہنچے اس وقت وہاں عاکف پاشا عثمانی خلافت کی طرف سے حکمران تھا۔ اس نے ایک لبنانی ڈاکٹر کو امام عبدالرحمن کے پاس بھیجا تاکہ وہ عثمانی خلافت کی طرف سے ان سے بات چیت کرے۔ 1890ء میں انہوں نے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں موجودہ سعودی عرب کے بانی شاہ عبدالعزیز بھی اپنے والد کے ہمراہ تھے۔ ترکوں نے ریاض کی حکمرانی کی پیشکش کی۔ بشرطیکہ وہ ریاض کی حکمرانی اس طرح کریں کہ وہ عثمانی سلطنت کے ماتحت رہیں۔ امام عبدالرحمن نے فوری طور پر اس شرط کو ماننے سے انکار کر دیا پھر وہ
Flag Counter