Maktaba Wahhabi

62 - 467
اپنے بھائیوں اور چچا زادوں سے ملاقات کی۔ وہ ایک بار پھر والد کو شہر سے باہر لے گئے۔ اس وقت وہ باپ بیٹا ہی تھے انہوں نے والد سے ملتجیانہ انداز میں کہا: ’’ابا جان! آپ کے لیے دو صورتیں ہیں۔ یا تو کسی ملازم کو حکم دیں کہ وہ میرا سرتن سےجدا کر دے تاکہ میں اس زندگی سے سکون سے گزر جاؤں یا پھر مجھے اجازت دیں کہ میں نجد میں جاکر لڑ سکوں ‘‘ یہ وہ دو مطالبے تھے جس کے نتائج اچھے نظر نہیں آر ہے تھے۔ امام عبدالرحمٰن کو دونوں میں سے ایک ماننا تھا کیونکہ وہ اپنے بیٹے کے عزم وارادہ سے باخبر تھے۔ دونوں مطالبے سن کر کچھ دیر کے لیے امام عبدالرحمٰن نے آنکھیں بند کر لیں اور سوچنے لگے۔ پھر آنکھیں کھول کر انہوں نے بیٹے کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا ’’اے عبدالعزیز اللہ تعالیٰ تمہیں توفیق دے۔ چلو اس راستہ پر جس کے لیے تم نے ارادہ کیا ہوا ہے۔نوجوانوں کے ارادوں کے سامنے پہاڑ نہیں ٹھہر سکتے۔‘‘ یہ سن کر شہزادہ عبدالعزیز کے چہرے پر اطمینان کی روشنی پھیل گئی۔ اور اپنے والد امام عبدالرحمٰن آل سعود کےگلے لگ گئے اور خوشی سے ان کا ماتھا چوما۔ یہ وہ انقلابی ملاقات تھی جو باپ بیٹے کے درمیان ہوئی۔ اب صرف ایک اور مرحلہ در پیش تھا اور وہ تھا والدہ سے اجازت کا سو والدہ نے بھی اجازت دی۔ الزرکلی نے شبہ الجزیرہ کے صفحہ 79 پر شاہ عبدالعزیز کی زبانی لکھا ہے کہ شاہ عبدالعزیز نے کہا۔ ’’جب میں نے والد سے ملاقات کی تومجھے لگا کہ اگر والد نے مجھے اجازت دی تو ان کے سامنے دو راستے ہوں گے۔ ایک بیٹے سے محبت کا کہ وہ اپنے آپ کو
Flag Counter