Maktaba Wahhabi

74 - 467
اس کے 33 ساتھیوں کو چھوڑ ا اور سات افراد شہر کے طرف چلے۔ میں(عبدالعزیز)تھا عبدالعزی بن جلوی، فہد،عبداللہ بن جلوی،ناصر بن سعود، اور میرے دو ملازم معشوق اور سبعان تھے۔ اس وقت ہم سوچ رہے تھے۔ کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ہم نے قلعہ کے قریب ایک گھر دیکھا۔ یہ ایک تاجر کا گھر تھا جو گائے فروخت کرتا تھا۔ زیادہ عمر والا تھا۔ اس کا نام جو یسر تھا وہ اب تک زندہ تھا(یہ 1935ء میں شاہ عبدالعزیز نے بیان کیا ہے)اس کی لڑکیاں بھی تھیں جو میری پہلی بار ریاض آمد کی وجہ جانتی تھیں۔ ایک اور آدمی تھا اس کا نام ابن مطرف تھا۔ وہ ابن رشید کی طرف سے مقرر کردہ امیر کا ملازم تھا۔ میں نے دروازے پر دستک دی۔ لڑکیوں میں سے ایک نے پوچھا کون ہے ؟ میں نے جواب دیا میں ابن مطرف ہوں۔ امیر عجلان نے بھیجا ہے اور اس نے حکم دیا ہے کہ کل اس کے لیے دو گائے خرید کر لائے۔ اور اسی سلسلہ میں مجھے تمہارے والد سے ملنا ہے۔ اس نے اندر سے کہا کہ شرم نہیں آتی۔ کیا کوئی رات کو خواتین والے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا تا ہے۔ تمہاری نیت میں کوئی فتور ہے۔ چلے جاؤں یہاں سے میں نے(شاہ عبدالعزیز)جواب دیا ٹھیک ہے صبح میں امیر عجلان سے شکایت کردونگا تو وہ تمہارے والد کو ذبح کر دے گا۔ جب اس کے والد نے یہ بات سنی۔ وہ گھبرایا ہوا باہر نکلا جب اس نے دروازہ کھولا۔ میں نے اسے پکڑا۔ اور کہا کہ خبیث چب ہو جاؤ۔ اس پر خواتین نے مجھے پہچان لیا اور انہوں نے نعرہ لگایا۔’’چچا چچا ‘‘ میں نے کہا ’’بس کرو۔‘‘ ہم نے جو یسر کی لڑکیوں کو گھر کے ایک حصہ میں بند کر دیا۔ اور ان کا والد ڈر کے مارے گھر
Flag Counter