Maktaba Wahhabi

82 - 467
سعود الکبیر کی تلوار شہزادہ عبدالعزیز کے ہاتھوں میں جب والد امام عبدالرحمن ٰ آل سعود اور ان کا فرمان بردار بیٹا ریاض پہنچے۔ تو چند دن تک امام عبدالرحمٰن آل سعود نے آرام کیا۔ دارالحکومت کے مختلف و فود ان کی سلامی کےلیے آنے شروع ہوئے۔ اس کے بعد دار الحکومت کے بڑے بڑے علماء کرام کا مسجد الکبیر میں جمعہ کی نماز کے بعد ایک اجتماع ہوا۔ شہزادہ عبدالعزیز نے والد سے کہا ’’حکمرانی آپ کا حق ہے اور میں بطور ایک سپاہی کے آپ کےماتحت کام کروں گا۔‘‘ امام عبدالرحمٰن نے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’اگر مجھے یہاں ریاض بلانے کا مقصد یہ ہے کہ میں حکمرانی سنبھال لوں۔ تو یہ ناممکن ہے۔‘‘ اس دوران علماء کرام نے مداخلت کی اور انہوں نے شہزادہ عبدالعزیز سے کہا کہ بیٹے کو چاہیے کہ وہ والد کی اطاعت کرے۔ انہوں نے امام عبدالرحمٰن سے بھی کہا کہ وہ شہزادے کےجذبات کا احترام کریں لیکن انہوں نے فرمایا ’’حکمرانی کا حق شہزادے کا ہے میرا نہیں ‘‘ چنانچہ شہزادے نے اسے مشروط طور پر قبول کیا۔ شرط یہ تھی کہ میرے والد میرے نگران ہوں گے اور میری ان امور کی طرف رہنمائی کریں گے جن میں مملکت کی بھلائی ہو گی اور اگر اس مملکت کے مصلحت کے خلاف کوئی بات ہو گی تو اس سے مجھے روکیں گے امام عبدالرحمٰن نے جو ابتدائی نصیحت اور ہدایات دیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔ ’’سنو عبدالعزیز! انصاف حکمرانی کی بنیاد ہے۔ اگر تم حکمرانی چاہتے ہو تو عدل کا خیال رکھو۔ ظلم سے بچتے رہو۔ ہمیشہ
Flag Counter