Maktaba Wahhabi

146 - 665
اس کی تیاری کے لیے زمین خریدی اور اینٹ سیمنٹ وغیرہ اکٹھا کیاتو(شیخ احمد للہ نے) سارا سامان غائب کرادیا اوراپنی زندگی میں وہاں نیل کی کھیتی اور اس کی تیاری نہ ہونے دی۔“[1] ”انگریز حکام جن سے لوگ سخت خوف کھاتے اورجن کا سامنا کرنے سےگریزکرتے تھے، وہ بھی جب رحیم آباد میں شیخ صاحب کی حویلی کے سامنے سے گزرتے توسواری سےاترجاتے اورسر بھی جب رحیم آباد میں شیخ صاحب کی حویلی کے سامنے سے گزرتے تو سواری سے اترجاتے اور سر سے ہیٹ اتاردیتے۔“[2] انگریزی حکام کے سامنے قدم جمالینا اور ان کوکسی انداز سے مرعوب کرناتو بہت اچھی بات تھی، ان کو اس جراءت کی داد دینا چاہیے، لیکن بسااوقات وہ خوداپنے لوگوں سے بھی سختی کابرتاؤ کرتے اور انھیں تکلیف پہنچانے میں راحت محسوس کرتے تھے۔ایک مرتبہ علاقے کے ایک بڑے آدمی سے کسی بات پر اختلاف ہواتو اس کے چالیس بیل، گاڑی اور بہت سا سامان غائب کرادیا۔[3] ان کے حالات سے اس قسم کے بعض اورواقعات کا بھی پتا چلتا ہے۔لیکن جب ا للہ تعالیٰ نے ہدایت دی اورخیروشر میں تمیز کرنے کی صلاحیت عطا فرمائی توگزشتہ تمام امورسے توبہ کرکے اسلام کی خدمت اور مسلک سلف کی ترویج واشاعت میں مصروف ہوگئے اور اپنی پوری طاقت اور مال ودولت کو اس عمل خیر کے لیے وقف کردیا۔[4] ایک بزرگ حافظ محمد صدیق صاحب مرحوم نے 12، 19، مارچ 1920ء کے اخبار”اہلحدیث“(امرتسر) میں مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی کےسوانح حیات تحریر فرمائے تھے۔مولانا رحیم آباد ی کے ولد محترم کی جودوسخاوت اور اتباع سنت کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: ”رئیس الموحدین جناب شیخ احمد اللہ صاحب رئیس موضع رحیم آباد بہت بڑے جواد، کریم محبت اہل علم، متقی، عابد اور متبع سنت بزرگ گزرے ہیں۔ان کے مناقب واوصاف کا اس سے پتا چلتا ہے کہ استاذ الاساتذہ استاذی المکرم مولانا حافظ عبداللہ صاحب محدث غازی پوری رحمۃ اللہ علیہ کبھی کبھی اس قسم کے تذکروں میں فرمایا کرتے تھے کہ بڑے لوگوں میں جناب نواب صدیق حسن خاں صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور چھوٹے رئیسوں میں جناب شیخ احمداللہ صاحب مرحوم نے توحید وسنت کی اشاعت میں جس مالی انفاق وایثار سے کام لیا ہے، اس میں یہ حضرات اپنی نظیر آپ ہیں، رحمهم اللّٰه تعاليٰ
Flag Counter