پانچ صد روپیہ دے کر دہلی بھیجا۔ شاہ صاحب نے فرمایا کہ بڑھاپے میں دہلی چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔“[1] شاہ صاحب خود تو بھوپال نہیں گئے البتہ بعض علما کو اپنی سفارش کے ساتھ بھوپال بھیج دیا تھا جنھوں نے دینی و دنیوی علوم کی نشر و اشاعت میں بڑی جانفشانی سے کام لیا۔اس کے نتیجے میں شمالی ہندوستان کی تہذیب و تمدن میں بڑا نکھار پیدا ہوا اور بھوپال، دہلی کا ایک حصہ معلوم ہونے لگا۔[2] 1792ء میں ماجی ممولا اور 1794ء میں دیوان چھوٹے خاں وفات پا گئے تو ریاست بھوپال میں پھر خانہ جنگیوں اور سازشوں کا بازار گرم ہو گیا۔ نواب حیات محمد خاں کمزور حکمران تھا، وہ حالات کا مقابلہ نہ کر سکا اور حکومت سے علیحدہ ہو کر خانہ نشینی اختیار کر لی۔ چنانچہ 1795ءمیں ایک جلا وطن شہزادے وزیر محمد خاں نے ریاست کو بچانے کے لیے بھوپال کا عزم کیا۔وزیر محمد خاں ریاست کے بانی سردار دوست محمد خاں کا پڑپوتا تھا، جسے کسی وجہ سے ریاست بدر کردیا گیا تھا۔ اس نے ایسی حکمت عملی سے کام لیا کہ تھوڑے عرصے میں نے صرف تمام اندرونی اور بیرونی سازشوں کا خاتمہ کر دیا بلکہ ریاست میں نئی فتوحات کا آغاز ہو گیا اور اس کی حدود بڑھنے لگیں۔ نواب حیات محمد خاں کا بیٹا غوث خاں ولی عہد تھا۔اس نے وزیر محمد خاں کے خلاف سازشیں شروع کردیں لیکن وزیر محمد خاں نے تدبیر اور صبر سے کام لیا اور ریاست کی ترقی میں مصروف رہا۔اس کے عہد میں ریاست نے واقعی ارتقا کی بہت سی منزلیں طے کیں۔ وزیر محمد خاں دراصل والئ ریاست نہ تھا۔لیکن ریاست کی طرف سے اسے وزیر الدولہ کا خطاب ملا تھااور اس نے اپنی کوششوں سے ریاست کو اِدھر اُدھر کی سازشوں کا شکار ہونے سے بچایا تھا۔ حیات محمد خاں جو گوشہ نشیبی کی زندگی بسر کر رہا تھا۔1808ءمیں وفات پا گیا، اور اس کے بیٹے غوث محمد خاں نے وزیر محمد خاں کو معزول کر کے ریاست کا نظم و نسق اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ وہ وزیرمحمد خاں کے اختیارات کلی طور سے ختم کرنا چاہتا تھا، اس کے لیے اس نے مرہٹوں کی مدد حاصل کی۔یہ صورت حال دیکھ کر وزیر محمد خاں گنور کے قلعے میں چھپ گیا۔ کچھ عرصے کے بعد مرہٹہ فوج واپس چلی گئی تو وزیر محمد خاں پھر بھوپال آگیا اور مرہٹوں کی جو تھوڑی بہت فوج بھوپال کی حدود میں موجود تھی، اسے بھگا دیا اور غوث محمد خاں کو گرفتار کر لیا۔ مرہٹے غوث محمد خاں کی حمایت میں دوبارہ میدان |