Maktaba Wahhabi

29 - 665
لیے کیا صورت اختیار کی جائے۔کبھی جی چاہتا تھا یہاں سے بھاگ جائیں اور کسی ماہر علوم استاذ کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ شوق پورا کریں، کبھی خیال گزرتا تھا کہ یہیں کہیں یہ مقصد حاصل ہوجائے۔ عظیم آباد کو روانگی اسی اثناء میں رازداری کے وعدے پر اپنے ایک ہم عمر طالب علم بشیر الدین عرف امداد علی سے مشورہ کیا تو پتہ چلا کہ اس کی قلبی کیفیت بھی یہی ہے۔چند روز کے بعد موقع پاکر رات کے اندھیرے میں دونوں گھر سے نکلے اور کسی طرح عظیم آباد(پٹنہ) جاپہنچے۔اس شہر کو اس زمانے میں مدینۃ العلم کی حیثیت حاصل تھی۔وہاں کے محلّہ تموہیاں میں شاہ محمد حسین کے مکان پر ٹھہرے، جہاں طلباء کی تعلیم اور ان کی ضروریات کی کفالت کا بہت اچھا انتظام تھا۔طلباء اچھی خاصی تعداد میں ہروقت وہاں تحصیل علم میں مصروف رہتے تھے۔میاں صاحب اور ان کے ساتھی بشیر الدین عرف امداد علی 1237ھ(1821ء) میں وہاں پہنچے تھے۔میاں صاحب کم وبیش چھ مہینے وہاں اقامت گزیں رہے۔اس عرصے میں انھوں نے وہاں کے اساتذہ سے قران مجید کا ترجمہ پڑھا اور کتب حدیث میں مشکوٰۃ شریف پڑھی۔ عظیم آباد سے دہلی کا قصد اور راستے میں قیام یہاں یہ عرض کردیں کہ حضرت مولانا اسماعیل شہید دہلوی اور سید احمد شہید تین سو سے کچھ زیادہ آدمیوں کے قافلے کے ساتھ یکم شوال 1236ھ(2۔جولائی 1821ء) کو نماز عید الفطر پڑھنے کے بعد سفرحج کے ارادے سے رائے بریلی سے روانہ ہوئے تھے۔وہ ہندوستان کے مختلف شہروں کا چکر لگاتے اور وہاں قیام کرتے ہوئے مہینوں کے بعد پٹنہ(عظیم آباد) پہنچے تھے اور وہاں کے ایک مقام”گول گھر“ کے سامنے انھوں نے قیام کیا تھا۔”لین“ کے میدان میں جمعے کی نماز ہوئی تھی اور مولانا شہید نے وعظ فرمایا تھا۔میاں صاحب کا ارشاد ہے کہ ”ہم اس وعظ اور نماز میں شریک تھے۔سارا میدان لین کے آدمیوں سے بھرا ہوا تھا۔پہلی ملاقات سید صاحب اور مولانا شہید سے یہیں پٹنہ میں ہوئی تھی۔“[1] معلوم ہوتا ہے کہ سید صاحب اور مولانا شہید کی اس پندرہ روزہ صحبت اور وعظ کی برکت سے میاں صاحب کے دل میں دہلی جانے کا خیال پیدا ہوا۔کیونکہ اس وقت حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی زندہ تھے او ردہلی میں تشریف فرماتھے۔وہ حضرت مولانا شہید کے عظیم القدر خاندان
Flag Counter