Maktaba Wahhabi

299 - 665
مختلف دور اس مدرسے پر سے گزرے۔آخر میں مدرسے کا نظم ونسق پھاٹک حبش خاں کے مخیر بزرگ حاجی محمد زکریا صاحب مہاجر مکی کےہاتھ میں آیا۔ آپ نے مبلغ ڈیڑھ سو روپے ماہوار کی رقم مدرسے کے لیے وقف کردی، جس سے مدرسے میں جان پڑگئی۔ حاجی صاحب مکہ معظمہ ہجرت فرما گئے۔1354؁ ھ میں انتقال فرمایا اور جنت المعلّی میں مدفون ہوئے، غفراللہ لہ۔ ان کے بعد ان کے فرزند اکبر حاجی حافظ محمد امین صاحب نے مدرسے کا اہتمام اپنے ذمے لے لیا۔آپ کے حسن انتظام سے مدرسہ روز بروز عروج و کمال پر پہنچ رہا ہے۔ حافظ محمد امین صاحب جماعت اہل حدیث کے پرانے بہی خواہ ہیں۔ آپ نے کلکتہ و بنگال میں اہلحدیث کی بہت سی خدمات انجام دی ہیں۔اہل حدیث کانفرنس کے لیے علمائے کرام کے ساتھ بنگال میں دورہ کیا۔ جمعیت تبلیغ اہل حدیث کلکتہ کے بانی آپ ہی ہیں۔ اپ کو علما و طلبا سے خاص انس ہے۔جلالۃ الملک سلطان ابن سعود اور نجدیوں کی حمایت میں ایک کتاب بنام ”القول الفیصل“ تصنیف کر کے مفت شائع کی ہے، جس میں علاوہ فضائل حج کے تاریخ نجد پر خاص روشنی ڈالی ہے۔ الغرض آپ کا وجود جماعت اہل حدیث کے لیے بہت غنیمت ہے۔[1] مولانا ابو یحییٰ امام خاں نوشہروی کی کتاب”تراجم علمائے حدیث ہند“پہلی مرتبہ 1356؁ ھ(1938؁ ء)میں دہلی سے شائع ہوئی تھی اس وقت حافظ امین بھی زندہ تھے(جن کا ذکر اوپر کی سطور میں ہوا) اور مولانا محمد یونس بھی حیات تھے اور ان کا جوانی کاعالم تھا۔ ڈیڑھ سو روپےکو آج کے زمانے پر قیاس نہ کیجیے۔آج سے سوسواسو سال قبل کے دور کی روشنی میں غور کیجیے، جب کہ سونا پانچ چھ روپے تولے کے حساب سے ملتا تھا، اب بیس بائیس ہزار روپے تولے کے حساب سے فروخت ہوتا ہے۔ اس زمانے میں ڈیڑھ سو روپےکو بہت بڑی رقم سے تعبیر کیا جاتا تھا اور یہ رقم ہرمہینے حاجی محمد زکریا (اور ان کی وفات کے بعد ) ان کے فرزند گرامی حاجی امین مدرسہ میاں صاحب کو دیتے تھے، جس سے مدرسے کے اساتذہ کی تنخواہوں اور باقی اخراجات کی گاڑی اچھی طرح چلتی تھی۔ مولانا محمد یونس اس مدرسے میں تدریسی خدمات سر انجام دیتے تھے۔ یہاں یہ یاد رہے کہ حاجی محمد زکریا کی سکونت دہلی میں پھاٹک حبش خاں کے علاقے میں تھی اور میاں صاحب کا مدرسہ بھی وہیں تھا۔ اب مولانا محمد یونس کے حالات سے مطبع ہونے کوشش کرتے ہیں۔
Flag Counter