Maktaba Wahhabi

311 - 665
اگرچہ وہ عمراور مرتبے میں کم تر ہوتا اور کسی مسلک سے انسلاک رکھتا۔استفادے میں کسی قسم کی جھجک اورعار محسوس نہ فرماتے۔فقہ الحدیث میں انھیں ورک حاصل تھا۔اور مختلف مسالک فقہ کے اختلافی مسائل کے تمام پہلوؤں پر عبور رکھتے تھے۔اخلاق وعادات، شب وروز کے معمولات اور وسعت مطالعہ میں اسلاف کا خوبصورت نمونہ تھے۔ہر مسلک کے اہل علم کا احترام کرتے تھے۔ ان کی ایک تصنیف”الانصاف لرفع الاختلاف“ ہے۔جسے”خاتمہ اختلاف“ بھی کہا جاتا ہے۔اس کتاب میں ان مسائل کا تذکرہ فرمایا گیا ہے، جن میں احناف اور اہلحدیث کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے اور پھر اس اختلاف کو رفع کرنے کی اپیل کی گئی ہے۔حضرت مصنف اس کتاب میں تحریر فرماتے ہیں کہ ان مسائل میں اظہار رائے میں اعتدال اور توازن کا ثبوت بہم پہنچانا چاہیے۔انتہا پسندی اور ایک دوسرے پر طعن وتشنیع اورالزامات سے احتراز کرنا چاہیے۔یہ کتاب مکتبہ سلفیہ شیش محل روڈ لاہور نے شائع کی ہے۔ اس کتاب میں حضرت مصنف رحمۃ اللہ علیہ علمائے احناف کا بے حد احترام سے ذکر فرماتے ہیں اور مختلف فیہ مسائل کے بارے میں باحوالہ ان کے ارشادات نقل کرتے ہیں اور پھر درد مندانہ لہجے میں اہلحدیث اور احناف سے مسلکی اختلاف کو برداشت کرنے کی تلقین فرماتے ہیں۔ اب حضرت مولانا کے آخری مرض اور وفات کے متعلق چند باتیں: حضرت مرحوم کا ایک دن اوکاڑہ میں مکان سے نیچے اُتر رہے تھے کہ سیڑھیوں سے گرپڑے اور کافی چوٹیں آئیں۔تین سال صاحب فراش رہے۔لیکن اس حالت میں بھی تدریس حدیث کا سلسلہ جاری رکھا۔پھر 1962ء کے اوائل میں فالج کا شدید حملہ ہوا، جس سے زبان بھی متاثر ہوئی اور بات چیت کرنا مشکل ہوگیا۔لیکن اب بھی تدریس کا سلسلہ منقطع نہیں ہوا۔اللہ تعالیٰ کی قدرت کے رنگ دیکھئے کہ جب وہ حدیث پڑھانا شروع کرتے اور اس کے کسی موضوع پر گفتگو فرماتے تو بہت حد تک زبان کھل جاتی۔اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کی برکت پرمحمول کرنا چاہیے۔آخر وہ وقت آگیا جو ہر شخص پرآکر رہتا ہے۔4۔اگست 1962ء(2۔ربیع الاول 1382ھ) کو ہفتے کے دن اس دنیائے فانی سے عالم جادوانی کو تشریف لے گئے۔اناللہ وانا الیہ راجعون حضرت الاستاذ حافظ محمد صاحب گوندلوی رحمۃ اللہ علیہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔جنازے میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔اوکاڑہ میں دفن کیے گئے۔ اللّٰه م نور قبره ووسع مدخله وادخله جنت الفردوس
Flag Counter