Maktaba Wahhabi

358 - 665
قائم کی۔ اس تنظیم کی طرف سے ایک پندرہ روزہ پرچہ ”المؤتمر “جاری کیا۔ دہلی سے انھوں نے ایک ہفت روزہ اخبار”اہل حدیث گزٹ“کا اجرا ءکیا تھا۔ یہ ہفت روزہ آزادی ملک تک جاری رہا۔ وہ صافیہ بیان مقرر، بلند آہنگ خطیب، بہت اچھے مدرس اور منجھے ہوئے اخبار نویس تھے۔عالمانہ تحریر اور صاف ستھرا اسلوب نگارش۔ دہلی کے علمی، تدریسی اور اخباری حلقوں میں اپنا ایک مقام رکھتے تھے۔ تقسیم ہند کے بعد کراچی آگئے تھے اور پھر اسی شہر کو اپنا مسکن قرار دے لیا تھا۔ یہاں کی بہار کالونی میں ان کی سکونت تھی۔ اپنے گھر کے قریب ایک مسجد تعمیر کرائی، جس کا نام ”مسجد سبل السلام“رکھا، مسجد کے ساتھ ہی ایک دینی مدرسہ قائم کیا۔مولانا محمد یوسف کلکتوی اور محمد صالح رنگونی کے اشتراک و تعاون سے کراچی میں”کل پاکستان مؤتم اہل حدیث “قائم کی۔ اس جماعتی تنظیم کی طرف سے نیو کراچی سیکٹر میں ایک ہسپتال کا قیام عمل میں لایا گیا۔ کراچی سے ”اہل حدیث گزٹ“کے نام سے ایک ماہانہ رسالہ جاری کیا جو کئی سال شائع ہوتا رہا۔ جیسا کہ پہلےبتایا گیا، دہلی سے”اہل حدیث گزٹ“ہفت روزہ شائع کیا جاتا تھا۔ کراچی میں مولانا ممدوح نے جمعیت اہل حدیث (رجسٹرڈ) کی بنیاد رکھی اور اس کے اہتمام میں پندرہ روزہ ”الارشاد “جاری کیا، جس کے وہ کچھ عرصہ مدیر اعلیٰ رہے۔”دارالحدیث رحمانیہ“کے نام سے ایک دارالعلوم بھی جاری فرمایا۔لیکن ان اداروں سے کوئی ادارہ بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ تدریس و خطابت اور ادارت کے علاوہ مولانا ممدوح تصنیفی میدان میں بھی سر گرم رہے۔ انھوں نے متعدد موضوعات پر لکھا۔ان کی ایک کتاب کا نام”اسلام اور سوشلزم “ہے، اس کتاب نے بعض حلقوں میں بڑی شہرت پائی اور بہت پڑھی گئی۔ مفتی کی حیثیت سے بھی کراچی میں مولانا عبدالحنان علوی کا بڑا نام تھا۔ لوگ ان سے مختلف مسائل پوچھتے تھے اور وہ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیتے تھے۔ وہ مقرر تھے۔خطیب تھے مدرس تھے مدیر تھے، مصنف تھے، مفتی تھے، لیکن ان کا حلقہ اثر کراچی تک محدود تھا۔ پنجاب اور ملک کے دوسرے علاقوں تک نہ وہ گئے اور نہ ان کا حلقہ قائم ہوا۔ انھوں نے 3۔ جولائی 1987؁ءکو اپنی قیام گاہ بہار کالونی کراچی میں وفات پائی۔ان کی نماز جنازہ جامع مسجد اہل حدیث سبل السلام میں پڑھی گئی اور پنجابیانِ دہلی برادری کے قبرستان”شفیق پورہ“میں انھیں دفن کیا گیا۔انا للہ واناالیہ راجعون۔[1]
Flag Counter