Maktaba Wahhabi

384 - 665
میں داخلہ لیا۔ وہ بھی مسلکی اعتبار سے شافعی تھے، مگر تقلید کے خلاف تھے۔کتب حدیث اور شروح حدیث سے وہ بے حد دلچسپی رکھتے تھے۔ چنانچہ نیل الاوطار، تحفۃ الاحوذی شرح جامع ترمذی اور عون المعبود شرح ابو داؤد وغیرہ کتابوں کا علامہ محمد کا تنگاڈی نہایت شوق سے مطالعہ کرتے تھے اور ان کتابوں پر انھیں عبور حاصل تھا۔وہ تحقیق کے عادی تھے اور اپنے شاگرد مولانا ابوالبرکات احمدکو بھی انھوں نے تحقیق کی راہ پر لگادیا۔ وہاں کے دور قیام میں مولانا ابو البرکات احمدنے جہاں علم نحو وغیرہ کی انتہائی کتابیں پرھیں وہاں فقہ شافعی کی مختلف کتابوں کا بھی درس لیا۔ علاوہ ازیں تفاسیر میں سے جلالین، تفسیر خازن، کشاف، ابن کثیر، معالم التنزیل، المناراور تفسیر فتح البیان وغیرہ کا گہری نظر سے مطالعہ کیا۔ علامہ محمد کاتنگاڈی سے اخذ علم کے بعد علامہ الجاویری کے باب علم پر دستک دی۔ وہ بھی شافعی مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور اس عہد کے ممتاز عالم و مدرس تھے۔ منطق، فلسفہ، فقہ اور اصول فقہ کے ممتاز اساتذہ میں ان کا شمارہوتا تھا۔ مولانا ابو البرکات احمدنےان سے منطق و فلسفہ کی نصابی کتابیں بھی پڑھیں اور فقہ کی بعض کتابوں کا بھی ان سے درس لیا۔ اس کے بعد مدراس کے مدرسۃ العالیہ میں داخل ہوئے۔اس مدرسے کے اساتذہ سے معانی، بیان، بدیع، منطق، فلسفہ اور ریاضی وغیرہ فنون کی تکمیل کی جو اس مدرسے کے نصاب میں شامل تھے۔یہاں انگریزی بھی پڑھی۔کتب احادیث کا درس بھی لیا۔عربی زبان میں تقریر وتحریر کی مشق کا بھی یہاں خوب موقع ملا اور اس موقعے سے انھوں نے پورا فائدہ اٹھایا۔یہاں علامہ محمد الصلاح بہت سی تفسیروں کا مطالعہ کر کے”خلاصۃ التفسیر“کے عنوان سے طلباء کو لیکچر دیتے تھے۔ طلبا ءبھی ان تفسیروں کا مطالعہ کرتے تھے۔اس مدرسے کی بہت بڑی لائبریری تھی، جس سے علماء و طلبا ءاستفادہ کرتے تھے۔ مولانا ابو البرکات احمدنے بھی استفادہ کیا۔ اسی دوران مولانا ابو البرکات احمدنے ایک حنفی عالم سے فقہ حنفی اور اصول فقہ کی چند کتابیں پڑھیں۔ اس طرح انھوں نےاہل حدیث شافعی اور حنفی یعنی اپنے عہد کے تین علمی سر چشموں سے سیراب ہونے کا شرف حاصل کیا۔مروجہ علوم کی تحصیل کے علاوہ عربی میں تحریر و تقریرمیں مہارت پیدا کر لی۔ اب انھوں نے مزید تعلیم کے لیے مصر جانے کا منصوبہ بتایا اور قاہرہ کی جامعہ ازہر میں داخلے کا عزم کیا۔ ان کے گیارہ بہن بھائی تھے، جن میں چار زندہ تھے، باقی وفات پا چکے تھے۔اس لیے بیٹے کو اتنے دور کے سفر کی اجازت دینا ماں باپ کے لیے بہت مشکل تھا، تاہم انھوں نے بیٹے کے علمی شوق کو دیکھتے ہوئے اجازت دے دی اور وہ ویزا وغیرہ کے حصول کی غرض سے بمبئی میں مصری سفارت خانے پہنچے۔ مگر سفارت خانے سے مصر جانے کی اجازت نہ ملی۔ اس لیے کہ جامعہ ازہر کے
Flag Counter