Maktaba Wahhabi

457 - 665
ہیں:مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، مولانا مختار احمدندوی، مولانامختار احمد کشمیری، حکیم عبدالرحیم اشرف، حاجی محمد سعیددہلوی، ڈاکٹر ابوسلمان شاہجان پوری اور حافظ صلاح الدین یوسف۔ 1985ء؁ میں انھوں نےحج بیت اللہ کیا۔واپسی میں کچھ روز راولپنڈی میں بھی قیام رہا۔اس وقت دارالعلوم غواڑی کے ناظم مولانا عبدالرحمٰن خلیق بھی وہیں تھے۔انہی دنوں سابق صدر پاکستان ضیاء الحق سے ان کی ملاقات ہوئی۔ مولانا عبدالرشید لداخی ندوی کثیر المطالعہ عالم اورکثیر الافادہ مدرس تھے۔انھوں نے ہندوستان اور پاکستان کے جن مدارس میں مسئلہ تدریس جاری رکھا، وہ چھ ہیں۔ان کی تفصیل گذشتہ صفحات میں بیان کردی گئی ہے۔ان چھ مدارس میں ان سے لازماً بے شمار شائقین علم نے استفادہ کیا ہوگا، لیکن ان میں سے ہمیں صرف تین حضرات کے اسمائے گرامی کا پتا چل سکا ہے، اور وہ ہیں:مولانا ابوالاشبال صغیر احمد شاغف، مولانا عبداللہ ناصر اور پروفیسر عطاء الرحمٰن ثاقب۔ان میں سے عطاء الرحمٰن ثاقب تو 10۔مارچ 2002ء؁ کو جام شہادت نوش کرگئے۔لیکن مولانا ابوالاشبال اور مولانا عبداللہ ناصر اس دنیا میں موجود ہیں اور اللہ کی مہربانی سے ا پنے اپنے انداز میں خدمت دین میں مصروف ہیں۔اگر کوئی صاحب ہمت کرکے ان کے شاگردوں کی چھوٹی موٹی فہرست مختصر تعارف کے ساتھ تیار کردیں تو یہ بھی ایک خدمت ہوگی اور ہمیں پتا چل سکے گا کہ ان میں سے کون صاحب کہاں کوئی تصنیفی یاتدریسی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ مولانا عبدالرشید لداخی جس طرح خود مطالعہ کے شائق تھے اور مختلف موضوع کی کتابیں پڑھتے رہتے تھے، اپنے شاگردوں کے بارے میں بھی وہ یہی چاہتے تھے کہ وقت کو غنیمت جانیں اور مطالعہ ٔ کتب میں مصروف رہیں۔چنانچہ وہ انھیں کسی نہ کسی طرح کتابیں مہیا کرتے رہتے تھے اور جس طالب علم کی جس موضوع سے دلچسپی کا اندازہ کرتے، اس کے مطابق اسے مطالعہ کی تلقین فرماتے۔انھوں نے دارالعلوم غواڑی میں مکتبہ رشیدیہ کے نام سے چھوٹا سا مکتبہ قائم کررکھا تھا۔اس مکتبے میں وہ ملک اور بیرون ملک سے کتابیں منگواتے اور سستے داموں وہ کتابیں طلباء کو دیتے تھے۔اس طرح طلباء کو کتاب سے ایک تعلق رہتا۔ عمر کے آخری دور میں انھیں بعض عوارض نے گھیر لیا تھا اور وہ جسمانی طور پر بہت کمزور ہوگئے تھے۔1995ء؁ میں بینائی متاثر ہوئی اور راولپنڈی میں آنکھوں کا آپریشن کرایا گیا۔اس کے بعد مطالعے کا تسلسل ٹوٹ گیا جو ان کے ذہن وفکر کے لیے تقویت کا باعث تھا۔آہستہ آہستہ وہ چار پائی پر لیٹ گئے۔نہ چلنے پھرنے کی ہمت رہی نہ لکھنے پڑھنے کی طاقت۔ 9۔مارچ 2000ء؁ کو انھیں علاج کے لیے ڈسٹرکٹ ہسپتال سکردو میں داخل کرایا گیا۔ڈاکٹروں
Flag Counter