Maktaba Wahhabi

474 - 665
پیدا ہو گیا تھا کہ وہ آسانی سے بتا دیتے تھے کہ کون سی حدیث کس کتاب میں ہے اور کہاں ہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ حافظ صاحب مضمون نگاری کا ذوق بھی رکھتے تھے۔ حضرت مولانا کے مجلہ ”رحیق“میں ان کے چند مضامین شائع ہوئے تھے۔ حضرت مولانا مرحوم کے صاحبزادہ گرامی حافظ احمد شاکر انھیں احترام سے”بھائی جان“کہا کرتے تھے۔اب بھی وہ اکرام سے ان کا نام لیتے ہیں۔ بہت سال حافظ عبدالرحمٰن اہل و عیال سمیت مولانا مرحوم کے مکان میں رہے۔ حافظ عبدالرحمٰن مدت مدید تک حضرت مولانا مرحوم کے ساتھ مکتبہ سلفیہ سے منسلک رہے اور انھوں نےبڑا کام کیا۔ پھر جب مکتبہ سلفیہ سے علیحدگی اختیار کی تو حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ علیہ کی لمعات شرح مشکوۃ شائع کی۔حافظ صاحب ممدوح اس شرح کی صرف دو چار جلدیں شائع کر سکے باقی ابھی تک غیر مطبوع ہے۔ پرنٹنگ کے سلسلے میں وہ چند سال مدینہ منورہ میں رہے اور کچھ عرصہ لندن میں گزارا قیام لندن کے زمانے میں لندن کے ایک اُردو اخبار میں کسی موضوع پر انھوں نے میرا مضمون پڑھا، جس میں میری تصویر بھی تھی تو مجھے طویل خط لکھا اور وہ اخبار بذریعہ ڈاک مجھے بھیجا۔ مدینہ منورہ اور لندن کے چکر لگا کر وہ لاہور آگئے تھے اور شیش محل روڈ پر جلد سازی کاکام شروع کردیا تھا۔ ان کا ذہن کاروباری ہو گیا تھا اور اس میں وہ کامیاب تھے۔ ایک وقت آیا کہ ان پر فالج کا حملہ ہوگیا۔نہ چلنےپھر نے کی سکت رہی تھی، نہ بول سکتے تھے، لیکن ذہن صحیح تھا اور عیادت کے لیے آنے والے کو پہچانتے اور مسکراتے ہوئےاشارے سے اس کا حال پوچھتے تھے۔پانچ سال اس مرض میں مبتلا رہے۔ ان کے بڑے داماد میاں محمد جمیل انھیں اپنے گھر لے گئے تھے۔اللہ تعالیٰ انھیں جزائے خیرعطا فرمائےانھوں نےاپنے اس عالم فاضل سسر کی بہت خدمت کی۔ پانچ سال کی طویل اور اذیت رساں بیماری کی گرفت میں رہنے کے بعد حافظ عبدالرحمٰن گوہڑوی نے19جنوری1998؁ء(20رمضان المبارک 1418؁ ھ)کو وفات پائی اور نماز تراویح کے بعد ان کا جنازہ پڑھا گیا۔ اقبال ٹاؤن کے قبرستان میں دفن کیے گئے۔ انا للّٰه وانا اليه راجعون (اللّٰه مَّ اغْفِرْ لَهُ وَارْحَمْهُ وَعَافِهِ وَاعْفُ عَنْهُ)
Flag Counter