Maktaba Wahhabi

483 - 665
کےوالد نے ان سے کہاکہ وہ محمد علی کواہلحدیث کے کسی مدرسے میں داخل کرادیں۔چنانچہ وہ انھیں چک نمبر 493 گ ب اوڈاں والا لے گئے اوروہاں کے مدرسہ تعلیم الاسلام میں داخل کرادیاجو حضرت صوفی عبداللہ مرحوم ومغفور نے جاری کیاتھا۔یہ 1951ء؁ کی بات ہے۔اس وقت مدرسہ تعلیم الاسلام میں چھ اساتذہ کرام طلباء کو تعلیم دینے پر مامور تھے اور وہ تھے۔1۔ پیر محمد یعقوب قریشی۔2۔مولانا محمد یعقوب مہلوی۔3۔مولانامحمد صادق خلیل۔4۔مولانا عبدالصمد رؤف۔5۔مولانا عبدالحمید ہزاروی اور۔6۔مولانا محمدصدیق۔اس مدرسے میں محمدعلی جانباز کو پہلی جماعت میں داخلہ ملا اور انھوں نے مولانا محمد یعقوب ملہوی کے سواتمام اساتذہ سے کسب فیض کیا۔دوسال وہاں رہے۔ 1953ء؁ کے شروع میں محمدعلی جانباز سے ان کے ایک ساتھی نے کہا کہ وزیرآباد میں مدرسہ منانیہ کے نام سے ایک مدرسہ جاری کیاگیا ہے، وہاں کےخطیب بہت اچھے مدرس ہیں۔وہاں داخلہ لینا چاہیے۔چنانچہ یہ وزیرآباد آگئے۔پڑھائی شروع ہوئی تو پتہ چلاکے اس مدرسے کے مدرس، خطیب تو واقعی اچھے ہیں لیکن تدریس میں ان کو وہ ملکہ حاصل نہیں جو مدرس کو ہونا چاہیے۔اب محمد علی نے فارغ اوقات میں وزیرآباد کے ایک دیوبند عالم مولانا محمد رمضان سے پڑھنا شروع کردیا۔وہ بہت اچھے مدرس تھے اورانتہائی نصابی کتابیں پڑھانے کی کامل صلاحیت رکھتے تھے۔ اس اثناءمیں مارچ 1953ءٔ؁ میں تحریک تحفظ ختم نبوت شروع ہوگئی اور علماء گرفتار ہونے لگے۔وزیر آباد کی غلہ منڈی میں روزانہ جلسے ہوتے تھے اور لوگ گرفتاریاں پیش کرتے تھے۔ایک روز مدرسہ منانیہ کے طلباء نے بھی گرفتاری پیش کی۔پولیس نے ان کو گرفتار کرکے گاڑی میں بٹھایا اور” راہوالی“ چھوڑ آئے۔وہاں سے یہ وزیر آباد گئے۔پولیس والے لوگوں کوگرفتار کرکے وہاں چھوڑ آتے تھے اور لوگ اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے۔اب راہوالی کو فوجی چھاؤنی بنادیا گیا ہے۔ وزیرآبادمیں محمد علی جانباز تھوڑا عرصہ ہی رہے۔اس کے بعد گوجرانوالہ آکر جامعہ اسلامیہ میں داخلہ لے لیا۔اس وقت جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں محدث عصر حضرت حافظ محمد گوندلوی اور مولانا ابوالبرکات احمد کا سلسلہ ٔ جاری تھا اور طلباءکی تعدادچالیس کے پس وپیش تھی۔دونوں بلند پایہ استاد تھے۔طلباء کی تعداد بڑھی تو اور اساتذہ کی خدمات حاصل کرلی گئی تھیں۔مولانا محمد علی جانباز نےزیادہ تر درسی کتابیں مولانا ابوالبرکات احمد سے پڑھیں۔1953ء؁ کے نصف آخر میں وہاں گئے تھے، 1957ء؁ کے آخر تک وہاں زیر تعلیم رہے۔اس اثناء میں انھوں نے جامعہ اسلامیہ کے عظیم القدر اساتذہ سے خوب اکتسابِ فیض کیا۔وہ جامعہ اسلامیہ کے اساتذہ اور ان کے طریق تعلیم وتدریس کے علاوہ اس کی انتظامیہ کے حسن انتظام کےبھی معترف ہیں اور طلباء کے ساتھ ان کے سلوک کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔
Flag Counter