Maktaba Wahhabi

100 - 452
نماز بھی جواب دے سکتا تھا لیکن نماز کی ادائیگی (زبان سے جواب دینا) اس کے منافی تھی۔ [1] علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور جمہور اہل علم کا یہی موقف بیان کیا ہے کہ دوران نماز اشارہ کے ساتھ سلام کا جواب دیا جا سکتا ہے۔[2] آخر میں ہم سلام کہنے والوں کو بھی یہ نصیحت کرنا ضروری خیال کرتے ہیں کہ وہ کڑک کر سلام کہنے کی بجائے نہایت شائستگی کے ساتھ آہستہ آواز میں سلام کہیں تاکہ دیگر نمازیوں کے لیے تشویش کاباعث نہ ہو۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ سے اس قسم کا سوال ہوا تو آپ نے درج ذیل جواب دیا: ’’اگر کوئی نمازی اشارے سے سلام کا جواب اچھے طریقے سے دے سکتا ہے تو اسے سلام کہنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہتے تھے اور آپ اشارہ سے اس کا جواب بھی دیتے تھے لیکن اگر وہ اچھے طریقے سے جواب نہیں دے سکتا بلکہ خدشہ ہے کہ وہ بول پڑے گا تو اسے اس حال سے دو چار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ایسا کرنے سے یا تو اس کی نماز ٹوٹ جاے گی یا اسے سلام کا جواب دینے کا فریضہ ترک کرنا پڑے گا۔[3] اس اندیشہ کے پیشِ نظر حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں لو گوں کے پاس جاؤں جو نماز پڑھ رہے ہوں تو میں انہیں سلام نہیں کہوں گا۔ [4] امام ابو یعلیٰ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا قول سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔ [5] بہر حال زیر بحث مسئلہ میں افراط و تفریط سے اجتناب کرنا چاہیے، اگر کوئی شخص کسی نمازی کو سلام کہنا چاہتا ہے تو آہستگی کے ساتھ سلام کہہ دے تاکہ اس کا خشوع متاثر نہ ہو اور دوران نماز اس کا جواب اشارہ سے دے یا اسے سلام پھیرنے تک مؤخر کر کے بعد از فراغت جواب سلام کہہ دے۔ اس مسئلہ کے متعلق علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی تفصیل سے گفتگو کی ہے۔[6] نماز اشراق سوال: نماز چاشت اور نماز اشراق میں کیا فرق ہے ، اس کا وقت اور رکعات کی تعداد بھی بتائیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب درکار ہے۔ جواب: نماز چاشت اور نماز اشراق یہ دونوں نام ایک ہی نماز کے ہیں جو طلوعِ آفتاب کے بعد ادا کی جا تی ہیں ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین چیزوں کی وصیت کی تھی: 1۔ ہر ماہ میں تین دن (ایام بیض یعنی تیرہ ، چودہ اور پندرہ) کے روزے رکھنا2چاشت کی دو رکعت پڑھنا۔ 3سونے سے پہلے وتر پڑھ لینا۔ [7]
Flag Counter