Maktaba Wahhabi

99 - 452
کیا اور دونوں واقعات صحیح ہیں۔[1] ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اس اشارے کو جوابی سلام ہی سمجھا، اسے کسی دوسرے رد عمل پر محمول کرنا بعید از قیاس ہے۔ چنانچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے متعلق ایک واقعہ بیان کیا ہے کہ وہ ایک آدمی کے پاس سے گذرے جو نماز پڑھ رہا تھا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اسے سلام کہا تو اس نے سلام کا جواب زبان سے کہا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف لوٹ کر آئے اور اسے فرمایا:’’جب دوران نماز کسی کو سلام کہا جائے تو اس کا جواب زبان سے نہ دے بلکہ اپنے ہاتھ سے اشارہ کر دے ۔[2] ’’دوران نماز سلام کا جواب نہ دیا جائے۔ ‘‘[3] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس سے مراد عام متعارف الفاظ میں جواب نہ دیا جائے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ کسی دوسرے آدمی سے مخاطب ہو جا تا ہے جو نماز میں منع ہے۔[4] پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت دو احادیث ذکر کی ہیں، ایک حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث جبکہ وہ حبشہ سے واپس آئے تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہا اور آپ اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے اس کا جواب نہ دیا اور فرمایا کہ نماز میں مصروفیت ہوتی ہے۔ [5] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ابن ابی شیبہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبان سے نہیں بلکہ اشارہ سے اس کا جواب دیا۔[6] چنانچہ آپ نے آئندہ ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے : ’’نما ز میں اشارہ کرنا ‘‘[7] اس مقام پر متعدد احادیث پیش کی ہیں جن سے ثابت ہو تا ہے کہ دوران نماز کسی وجہ سے اشارہ کیا جا سکتا ہے جب دیگر اغراض کے پیش نظر اشارہ کیا جا سکتا ہے تو جوابی سلام کے لیے بھی اشارہ ہو سکتا ہے اور ایسا کرنا نماز کی مصروفیت کے منافی نہیں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نماز میں مصروفیت والی حدیث ابن مسعود میں یہ اضافہ بھی نقل کیا ہے:’’سلیمان کہتے ہیں کہ میں نے ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا کہ آپ ایسے موقع پر کیا کر تے ہیں تو انھوں نے جواب دیا کہ میں دل میں جواب دیتا ہوں۔ ‘‘[8] جب دل میں جواب دینا نماز کی مصروفیت نہیں تو اشارہ سے جواب دینا کیوں منافی ہو سکتا ہے بہر حال امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان قطعاً یہ نہیں کہ دوران نماز سرے سے سلام کا جواب نہ دیا جائے بلکہ زبان سے جواب دینے پر پابندی ہے جیسا کہ حافظ ابنحجر رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت سے لکھا ہے: یہ ضروری نہیں کہ سلام کا جواب دوران نماز اشارہ سے ہی دیا جائے ۔ کیونکہ یہ تو ایک رخصت ہے اگر کوئی اس فرض کی ادائیگی کو سلام پھیرنے تک مؤخر کر دے تو بھی جائز ہے ، سلام پھیرنے کے بعد وہ زبان سے اس کا جواب دے دے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ کو سلام پھیرنے کے بعد جواب دیا تھا اور فرمایا تھا کہ میں دوران
Flag Counter