Maktaba Wahhabi

91 - 452
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ مصروفیت کی وجہ سے ظہر کے بعد والی دو سنتیں نہیں پڑھ سکے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد مصروفیت کے اختتام پر انہیں ادا کیا تھا۔[1] ان احادیث کی روشنی میں اگر نماز ظہر سے پہلے والی سنتیں رہ جائیں تو انہیں نماز کے بعد ادا کیا جا سکتا ہے لیکن پہلے نماز ظہر کے بعد والی دو سنتیں پڑھی جائیں پھر ان کے بعد پہلی چار سنتیں ادا کی جائیں۔ (واللہ اعلم) دوران نماز قرآنی آیات کا جواب سوال: احادیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دوران نماز آیت رحمت پڑھتے تو اللہ تعالیٰ سے جنت کا سوال کرتے اور جب آیت عذاب پڑھتے تو جہنم سے پناہ مانگتے ، کیا اس حدیث کے پیش نظر ہم پر ضروری ہے کہ بعض قرآنی آیات کا جواب دیں جیسا کہ ہمارے ہاں نماز با جماعت میں امام جب سبح اسم ربک الاعلیٰ پڑھتا ہے تو مقتدی بآواز بلند سبحان ربی الاعلیٰ کہتے ہیں، اسی طرح کچھ دیگر آیات کا بھی مقتدی حضرات جواب دیتے ہیں۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل جواب تحریر کریں۔ جواب: سوال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو معمول بیان ہوا ہے اس کی وضاحت کچھ اس طرح ہے:’’حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کا مشاہدہ بیان کر تے ہیں کہ دوران قرأت جب آپ تسبیح پر مشتمل آیات تلاوت کر تے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی تسبیح کر تے اور جب کبھی سوال کی آیت سے گزرتے تو رحمت کا سوال کر تے ، اسی طرح جب کبھی تعوذ پر مشتمل آیات پڑھتے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کر تے۔ ‘‘[2] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول اگرچہ صلوٰۃ اللیل سے متعلق ہے تاہم محدثین کرام نے اسے عام رکھا ہے یعنی جب کوئی ایسی آیت کی تلاوت کرے جس میں اللہ کی تسبیح یا پناہ یا سوال کا ذکر ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ پر عمل کر تے ہوئے اس وقت اللہ کی تسبیح کرے، اللہ تعالیٰ سے سوال کرے۔ نیز دینی اور دنیوی ضرر ، نقصان اور خسران سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرے۔ دوران قرأت یہ ایک عام ہدایت ہے جس کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے۔ یہ بھی و اضح رہے کہ یہ ہدایت صرف قاری یعنی پڑھنے والے کے لیے ہے ، سننے والے کے لیے نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع صرف اس معنی میں تمام افرادِ امت کے لیے عام ہے جب فرد کی حالت بھی وہی ہو جس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی کام سر انجام دیا ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معمول کا مشاہدہ کیا اور بیان کر دیا۔ یہ کسی روایت میں نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کی آیات سن کر انھوں نے خود تسبیح یا سوال کیا ہو یا اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب کی ہو۔ اس تمہید کی بعد ہم اصل سوال کی طرف آتے ہیں کہ ہمارے ہاں نماز با جماعت میں جب امام سبح اسم ربک الاعلیٰ پڑھتا ہے تو مقتدی بلند آواز سے سبحان ربی الاعلیٰ پڑھتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟ نماز اور غیر نماز میں آیات کا جواب دینا ثابت ہے جیساکہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہو تاہے۔
Flag Counter