Maktaba Wahhabi

58 - 452
ہے۔ جبکہ مذکر اپنے مثانے میں جمع شدہ پیشاب کا کم حصہ خارج کرتا ہے اور وہ کم مقدار بھی زیادہ جگہ پر پھیل جاتی ہے اس لئے جراثیم کی افزائش کے لئے مدد گار ماحول پیدا نہیں ہوتا، اسے مزید کمزور اور غیر مؤثر بنانے کے لئے متاثرہ مقام پر صرف چھینٹے مار دینے سے کام چل جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ طب جدید اس بات کو بھی تسلیم کرتی ہے کہ غذائی اجزاء کی توڑ پھوڑ کے نیچے کچھ زہریلے مرکبات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ پھر شیر خوار بچے کے متحرک نظام کی بدولت پیشاب میں زہریلے مواد خطرناک حد تک جمع نہیں ہوتے، وہاں چھینٹے مار کر ان کے زہر کو ختم کر دیا جاتا ہے جبکہ بچی کے اندر پیدا کردہ نظام بہت سست ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس کے پیشاب میں زہریلے مادوں کا ارتکاز بڑھ جاتا ہے ۔ ان کے اثرات کو زائل کرنے کےلئے اسے دھونا پڑتا ہے۔ غالباً خواتین میں جوڑوں اور ہڈیوں کا درد اسی زہریلے مواد کی بناء پر بکثرت پایا جاتا ہے، طب جدید نے جن سر بستہ رازوں کو آج کھولا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان حق ترجمان سے آج سے چودہ سو سال قبل انکشاف کر دیا تھا کہ شیر خوار بچی کے پیشاب کو دھویا جائے اور بچے کے پیشاب پر چھینٹے مارنا ہی کافی ہے۔ ( واللہ اعلم ) تیمم اور اس کا طریقہ سوال:ہمارے ہاں تیمم اور اس کی مشروعیت و طریقہ کے متعلق بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں ، براہ کرم کتاب و سنت کی روشنی میں اس کے متعلق وضاحت کر دیں؟ جواب: تیمم کا لغوی معنی قصدو ارادہ ہے اور اصطلاحی معنی یہ ہے کہ چہرے اور ہاتھوں پر پاک مٹی سے مخصوص طریقہ کے ساتھ مسح کرنا ۔ شرعی عذر کے وقت تیمم وضوء کا بدل ہے اور اس سے ہر وہ کام لیا جا سکتا ہے جو وضوء سے لیا جاتا ہے۔ تیمم امت محمدیہ کے لئے ایک خصوصی عطیہ ہے جو کسی دوسری امت کے حصہ میں نہیں آیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ میرے لئے زمین مسجد اور ذریعہ طہارت بنا دی گی ہے۔ ‘‘[1] ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ زمین کی مٹی ہمارے لئے ذریعہ طہارت قرار دی گئی ہے۔ ‘‘[2] درج ذیل صورتوں میں تیمم مشروع ہے: ٭سفر یا اقامت میں پانی نہ ہونا یا تلاش کے باوجود میسر نہ آنا۔ ٭جب کوئی بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے پانی کے استعمال میں اس قدر بے بس ہو کہ حرکت نہ کر سکتا ہو اور نہ کوئی وہاں وضوء کرانے والا ہو، نیز نماز کا وقت فوت ہونے کا اندیشہ ہو۔ ٭جب پانی شدید ٹھنڈا ہو اور اس کے گرم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہو، نیز ٹھنڈا پانی استعمال کرنے سے بیمار ہونے کا خدشہ ہو۔ ٭پانی اتنی قلیل مقدار میں ہو جس سے اعضاء وضوء نہ دھل سکتے ہوں۔ حدیث میں ایک مد پانی سے وضوء کرنے کا ذکر ہے، اس سے کم پانی قلیل ہی شمار ہو گا۔
Flag Counter