Maktaba Wahhabi

44 - 452
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جس شخص نے اللہ کی اطاعت کی نذر مانی تو وہ اس کی اطاعت کرے اور جس نے اس کی نافرمانی اور معصیت کی نذر مانی وہ اس کی نافرمانی نہ کرے۔[1] صورت مسؤلہ یں ہفتہ بھر پوری رات کے قیام کرنے کی نذر مانی گئی جو کہ معصیت ہے کیونکہ پوری رات کے قیام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے ، ایسی نذر کو پورا نہیں کرنا چاہیے۔ امام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ اگر کسی نےمکروہ عبادت کی نذر مانی مثلاً یہ کہ وہ ہمیشہ رات بھر قیام کرے گا اور ہمیشہ دن کا روزہ رکھے گا تو ایسی نذر کا پورا کرنا واجب نہیں۔‘‘[2] ایسی نذر کا وہی کفارہ ہے جو قسم کا ہوتا ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ نذر کا کفارہ، قسم کا کفارہ ہے۔ ‘‘[3] قسم کا کفارہ دس مساکین کو کھانا کھلانا یا انہیں لباس دینا ہے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو تین دن کے روزے رکھنا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعا لیٰ ہے: ’’ قسم کا کفارہ دس مساکین کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا ان کو لباس دینا یا ایک غلام آزاد کرنا ہے اور جسے یہ میسر نہ ہوں ، وہ تین دن کے روزے رکھ لے۔ ‘‘[4] ہمارے رجحان کے مطابق سائلہ کی امی کو چاہیے کہ وہ آئندہ اپنے حالات کو سامنے رکھ کر نذر مانا کرے ، البتہ صورت مسؤلہ میں وہ قسم کا کفارہ دے کر اس سے عہدہ بر آ ہو سکتی ہیں۔ ماہ صفر کی نحوست سوال:ہمارے معاشرہ میں کچھ لوگ ماہ صفر کو منحوس خیال کرتے ہیں ، خصوصاً اس کے ابتدائی تیرہ دنوں کو نحوست زدہ قرار دیا جاتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ لوگ ان دنوں میں شادی بیاہ نہیں کرتے ، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا آیاہے، وضاحت کریں؟ جواب: قرآن و حدیث میں کہیں بھی ماہ صفر کو منحوس نہیں قرار دیا گیا اور نہ ہی اس مہینہ میں کسی نیک عمل کو کسی فضیلت کے ساتھ خاص کیا گیا ہے۔ اس بنا پر جو نیک اعمال عام دنوں میں کئے جاتے ہیں وہ اس ماہ میں بھی کئے جا سکتے ہیں، البتہ عام لوگوں میں ماہ صفر کے حوالے سے مختلف عقائد و نظریات پائے جاتے ہیں ۔ لوگ اس مہینہ کو منحوس خیال کرتے ہیں ، خاص طور پر ابتدائی تیرہ دنوں کو ’’ تیرہ تیزی‘‘ کہا جاتا ہے، ان دنوں میں کسی قسم کی خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ماہ مبارک کے متعلق واضح طور پر فرمایا ہے: ’’ماہ صفر منحوس مہینہ نہیں۔‘‘[5] شارحین حدیث نے اس حدیث کی وضاحت میں مختلف خیالات کا اظہارکیا ہے ، چنانچہ راوی حدیث محمد بن راشد کہتے ہیں کہ اہل جاہلیت ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نفی فرما دی۔ [6] بعض اہل علم کے نزدیک اس سے مراد پیٹ کا درد ہے، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ صفر کی کوئی حقیقت نہیں اور یہ پیٹ کا درد ہے۔‘‘[7]
Flag Counter