Maktaba Wahhabi

114 - 452
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس نے ایمان کے پیش نظر ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا اس کے سابقہ گناہ معاف ہو جا تے ہیں۔ ‘‘[1] اسی طرح قیام رمضان کے متعلق بھی یہی فضیلت بیان ہوئی ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جو انسان ایمان کے پیش نظر ثواب کی نیت سے رمضان المبارک میں رات کا قیام کر تا ہے اس کے بھی سابقہ گناہ معاف ہو جا تے ہیں۔‘‘[2] اس حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :’’تطوع قیام رمضان من الایمان‘‘[3] قیام رمضان کے نوافل کا اہتمام بھی ایمان کا حصہ ہے۔ معنوی حیثیت سے ان دونوں عبادتوں کا بہت گہرا تعلق ہے لیکن اس طرح نہیں کہ ایک کی ادائیگی دوسری عبادت کو لازم ہو اور اس کے بغیر ادائیگی صحیح نہ ہو۔ اگر کوئی کسی وجہ سے نماز تراویح نہیں پڑھتا تو اس کے روزوں پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ روزہ فرض ہے اور اس کا رکھنا ضروری ہے خواہ تراویح پڑھی ہوں یا کسی وجہ سے نہ پڑھی جا سکی ہوں۔ نماز تراویح در اصل نماز تہجد ہے جو لوگ ان میں فرق کر تے ہیں وہ صحیح نہیں ، اس کی کوئی دلیل صحیح احادیث سے نہیں ملتی ، یہ نماز بھی نفل ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک میں اس کی تر غیب دیتے تھے، آپ نے رمضان المبارک میں چند دن خود اسے با جماعت پڑھانے کا اہتمام کیا، پھر اس خطرہ سے کہ مبادا فرض ہو جائے گھر میں ادا کر تے رہے۔ [4] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول وتر سمیت گیارہ رکعت پڑھنے کا تھا یعنی آٹھ تراویح اور تین وتر۔ چنانچہ حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تراویح کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا:’’رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘[5] اس حدیث کے مطابق سائل نے رمضان المبارک کی نماز کے متعلق دریافت کیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جامع جواب دیا کہ جو تعداد اور کیفیت سارے سال میں اس نما ز کی تھی وہی تعداد اور کیفیت رمضان میں رہی۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول گیارہ رکعت نماز تراویح ادا کرنا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں جنگوں کی مشغولیت کی بنا پر اس نفلی نماز کی طرف پوری توجہ نہ ہو سکی ، البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی طرف توجہ دی اور اسے اجتماعی طور پر ادا کرنے کا حکم دیا جس کی تفصیل احادیث میں موجود ہے۔ [6] آپ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لو گوں کو گیارہ ، گیارہ رکعات پڑھائیں۔ [7] اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمول کو بر قرار رکھتے ہوئے گیارہ رکعت
Flag Counter