Maktaba Wahhabi

441 - 452
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں سے اور مردوں مشابہت اختیار کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے۔ [1] لباس کے متعلق خصوصیت کے ساتھ وعید آئی ہے کہ مردوں کو عورتوں کا اور عورتوں کو مردوں کا لباس زیب تن نہیں کرنا چاہیے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے مرد پر لعنت فرمائی ہے جو عورت کا لباس پہنتا ہے اور ایسی عورت کو بھی ملعون قرار دیا ہے جو مردوں جیسا لباس پہنتی ہے۔[2] ان احادیث کے پیش نظر عورتوں کو کوئی بھی ایسی ادا اختیار کرنے کی اجازت نہیں جو مردوں کا شعار ہے اور اسی طرح عورتوں کو ایسی کوئی عادت اپنانے کی اجازت نہیں جو عادت مردوں کی علامت اور شعار ہے، اسی طرح کسی بھی عورت کے لئے مردوں کا مخصوص لباس اور کسی بھی مرد کے لئے عورتوں کا مخصوص لباس پہننا جائز نہیں ہے، لیکن اس امر کا جاننا بھی ضروری ہے کہ خصوصیت کا مفہوم کیا ہے؟ خصوصیت صرف رنگ میں نہیں بلکہ رنگ اور صفت دونوں کے مجموعے کا نام ہے ، اس وضاحت کے پیش نظر عورت کے لئے سفید رنگ کا لباس پہننا تو جائز ہے لیکن لباس میں مردوں جیسی تراش خراش اور وضع قطع اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔ یعنی جو لباس مردوں کا شعار ہے ، اسے عورتوں کو پہننا جائز نہیں ہے، جب یہ ثابت ہو گیا کہ مردوں کے ساتھ مشابہ مخصوص لباس عورتوں پر حرام ہے تو اس قسم کے لباس میں نماز ادا کرنے کے متعلق اہل علم میں اختلا ف ہے جس کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ اس قسم کے لباس میں عورت کی نماز درست نہیں کیونکہ واجب الستر اعضاء کا چھپانا شرائط نماز میں سے ہے اور ضروری ہے کہ ساتر لباس ایسا ہو جس کے پہنے کی اللہ نے اجازت دی ہے، اگر اللہ نے اس کی اجازت نہیں دی تو ایسا لباس شرعی طور پر ساتر نہیں ہوگا۔ ٭ اس قسم کے لباس میں نماز جائز ہے کیونکہ ستر تو حاصل ہو چکا ہے جب کہ اس طرح کا لباس پہننے سے گناہ ضرور ہو گا اور گناہ کا معاملہ نماز سے خارج ہے اور یہ گناہ نماز کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق حرام لباس زیب تن کر کے نماز پڑھنے والا نمازی اس خطرے سے تو دو چار رہے گا کہ اس کی نماز رد کر دی جائے اور شاید وہ شرف قبولیت سے محروم رہے، اس لئے ناجائز لباس میں نماز ادا کرنے سے گریز کرنا ہی بہتر ہے اگرچہ فقہی اعتبار سے شاید فرض کی ادائیگی ہو جائے۔ ( واللہ اعلم) حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں متبرک بال جواب: یہ واقعہ مشہور ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال رکھے ہوئے تھے جن کی وجہ سے انہیں ہر میدان میں فتح ہوتی تھی ، اس کی وضاحت درکارکر ہے ؟ جواب: ہمارے خطباء حضرات اپنی تقاریر میں یہ واقعہ بکثرت بیان کرتے ہیں کہ جب جنگ یرموک ہوئی تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی ٹوپی وہاں گم ہو گئی ، تلاش بسیار کے بعد وہ مل گئی، جس سے آپ کو اطمینان اور سکون میسر آیا، آپ کے ساتھیوں نے اس کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا: ’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عمرہ کیا تو اپنے بال منڈوائے، اس وقت لوگوں نے آپ کے موئے مبارک لینے کے لئے جلدی کی، میں نے آپ کی پیشانی کے بال حاصل کر لئے پھر میں نے ان بالوں کو اس ٹوپی میں رکھ دیا۔
Flag Counter