Maktaba Wahhabi

43 - 452
گیس وغیرہ کے بل کی وجہ سے کہہ دیا ہو گا کہ ہمیں اس کی ضرورت نہیں ، آپ مسجد میں کارپٹ بچھا دیں، اس صورت میں نذر کی جہت تبدیل کی جا سکتی ہے، آدمی کو چاہیے کہ وہ مسجد میں گیزر لگانے کے بجائے کارپٹ بچھانے کا اہتمام کر دے۔ ایسا کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں بلکہ اس سے نمازیوں کو زیادہ فائدہ ہو گا، امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ثواب بھی زیادہ عطا فرمائیں گے۔ ( واللہ اعلم) روحانی معالجوں کی حیثیت سوال:میرے والد گرامی ایک نفسیاتی مریض ہیں، ہم نے بہت علاج کرایا مگر افاقہ نہیں ہوا، ہمیں ایک عورت کے پاس جانے کا مشورہ دیا گیا ہے، جو اس قسم کے مریضوں کی تشخیص مریض اور اس کی والدہ کا نام پوچھ کر کرتی ہے، کیا ہمیں اس کے پاس جانا چاہیے؟ جواب: انسان کو اپنی صحت سے پہلے اپنے ایمان کی فکر کرنا چاہیے، سوال میں ذکر کردہ عورت کے پاس بغرض تشخیص یا علاج جانا اپنے ایمان کو خیر باد کہنا ہے کیونکہ اس کا تعلق ان کاہنوں سے ہے جو علم غیب کا دعویٰ کرتے ہیں اور علاج کرنے یا مرض بتانے کےلئے شیاطین سے کام لیتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کے کاہنوں کے پاس جانے سے منع فرمایا ہے ۔ آپ کا ارشاد گرامی ہے : ’’ جو شخص کسی نجومی یا کاہن کے پاس آئے پھر اس کی بتائی ہوئی باتوں کی تصدیق کرے تو اس نے اس شریعت کا انکار کیا جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے۔ ‘‘[1] ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایسے شخص کی چالیس دن تک نماز قبول نہیں کی جاتی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ حسب ذیل ہیں: ’’ جو شخص کسی نجومی کے پاس آئے اور اس سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کرے تو چالیس دن تک اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔ ‘‘[2]  ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ایسے لوگوں کے پاس جانا شرعاً جائز نہیں بلکہ ناگواری اور انکار واجب ہے۔ اس قسم کے ’’ روحانی معالجوں‘‘ کی بات ماننا اور ان کی تصدیق کرنا بھی ناجائز ہے۔ ( واللہ اعلم) نذر کو پورا کرنا سوال:میری امی نے نذر مانی تھی کہ اگر میں ایف ۔ اے کے امتحان میں پاس ہو گئی تو وہ ہفتہ بھر پوری رات کا قیام کریں گی، اب میں نے امتحان تو پاس کر لیا ہے لیکن وہ اپنی نذر پوری کرنے سے عاجز ہیں، اس کے لئے کیا حکم ہے؟ جواب: اس میں شک نہیں کہ نذر ایک عبادت ہے اور اسے پورا کرنے والوں کی اللہ تعالیٰ نے تعریف فرمائی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہُ مُسْتَطِیْرًا ﴾ ’’ وہ لوگ نذر کو پورا کرتےہیں اور اس دن سے ڈرتے رہتے ہیں جس کی سختی عام ہو گی۔ ‘‘[3]
Flag Counter