Maktaba Wahhabi

141 - 452
’’ مجھے ام فضل رضی اللہ عنہا نے کسی کام کے لئے علاقہ شام میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے ہاں بھیجا اور ان کا کام پورا کیا، میں ا بھی شام میں ہی تھا کہ رمضان المبارک کا چاند طلوع ہو گیا، میں نے بذات خود جمعہ کی رات چاند دیکھا، پھر میں رمضان کے آخر میں مدینہ طیبہ واپس آیا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے چاند کا ذکر کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا: ’’ تم نے رمضان کا چاند کب دیکھا تھا؟ میں نے عرض کیا : ’’ ہم نے جمعہ کی رات دیکھا تھا ، انہوں نے فرمایا: ’’ تم نے خود دیکھا تھا‘‘ میں نے عرض کیا : ’’ جی ہاں ‘‘ میں نے خود دیکھا تھا، دوسرے لوگوں نے بھی دیکھا تھا۔ اس رؤیت کے مطابق حضرات امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگوں نے روزہ رکھا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم نے تو ہفتہ کی رات چاند دیکھا تھا۔ ہم تو تیس دن مکمل ہونے تک روزے رکھتے رہیں گے یا ہمیں چاند نظر آ جائے۔ میں نے عرض کیا، کیا تمہیں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کی رؤیت کافی نہیں؟ انہوں نے فرمایا : نہیں ، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا تھا۔[1] اس حدیث میں ’’ یہی حکم ‘‘ سے مراد ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھنا اور چاند دیکھ کر عید کرنا ‘‘ ہے۔ اس سلسلہ میں چند اصول حسب ذیل ہیں : چاند دیکھنے کے سلسلہ میں انہیں مد نظر رکھنا چاہیے۔ ٭جب ایک شہر میں چاند نظر آ جائے تو اس سے ملتے جُلتے طول و بلد پر واقع تمام شہروں میں اس کی رؤیت کا اعتبار کیا جائے گا خواہ ان کا فاصلہ ہزاروں میل ہی کیوں نہ ہو، مثلاً کراچی اور ڈھاکہ دونوں ایک ہی طول و بلد پر واقع ہیں، ان میں سے کسی کی رؤیت دوسرے کےلئے معتبر ہو گی۔ ٭کسی شہر میں چاند نظر آ جائے تو اس سے مغرب میں واقع تمام علاقوں میں اس کی رؤیت کا اعتبار کیا جائے گا۔ وہاں دیکھنے کی ضرورت نہیں خواہ فاصلہ ہزاروں میل ہو مثلاً پاکستان میں دیکھا ہوا چاند سعودی عرب کے لئے معتبر ہو گا البتہ اس کا الٹ ضروری نہیں یعنی سعودی عرب کا چاند ہمارے پاکستان کےلئے معتبر نہیں ہو گا۔ ٭نشیبی علاقہ میں چاند نظر آ جائے تو بالائی علاقوں میں اس کا اعتبار کیا جائے گا البتہ بالائی علاقے میں چاند کی رؤیت نشیبی علاقوں کے لئے معتبر نہیں ہو گی، اس سلسلہ میں علمائے رصد اور ماہرین فلکیات سے راہنمائی لی جا سکتی ہے۔ ( واللہ اعلم) عید کے مہینوں میں کمی سوال: حدیث میں ہے کہ ’’ عید کے دو مہینوں میں یعنی رمضان اور ذوالحجہ میں کمی نہیں آتی‘‘ اس حدیث کا مطلب واضح کریں، نیز حدیث کی نشاندہی بھی کر دیں؟ جواب: امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ عید کے دونوں مہینے کم نہیں ہوتے۔‘‘[2] اس کے بعد حضرت ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں بیان کیا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ عیدین کے دو مہینے یعنی رمضان اور ذوالحجہ ناقص نہیں رہتے۔‘‘ (۱۹۱۲) اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے اہل علم نے درج ذیل اقوال بیان کیے ہیں:
Flag Counter