Maktaba Wahhabi

140 - 452
ایک روایت میں ہےکہ ’’ چاند دیکھ کر ہی حج اور قربانی کرو۔ ‘‘[1] اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ ہر شخص چاند دیکھے بلکہ کوئی ایک معتبر آدمی بھی چاند دیکھ لے یا کسی اور جگہ سے چاند نظر آنے کی خبر پہنچ جائے تو اس علاقے کے تمام لوگ روزہ رکھیں گے یا عیدین کریں اور نیا مہینہ شروع ہو جائے گا۔ البتہ یہ تحقیق کرنا ضروری ہے کہ دونوں جگہوں میں اتنا فاصلہ نہ ہو جتنے فاصلے سے چاند یکھنے میں ایک یا دو دن کا فرق پڑ سکتا ہو۔ آج کل ہر اسلامی ملک اتنا چھوٹا ہے کہ اس ملک میں کسی بھی جگہ چاند نظر آئے تو پورے ملک میں اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ البتہ مختلف ممالک میں چاند مختلف ہو سکتا ہے کیونکہ ان کا مطلع الگ الگ ہو سکتا ہے۔ جن ممالک کا مطلع الگ الگ ہے وہاں کے لوگوں کو کسی دوسرے ملک کے تابع کرنا قرین قیاس نہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے مدینہ طیبہ میں رہتے ہوئے ملک شام کے چاند کا اعتبار نہیں کیا تھا بلکہ انہوں صاف کہہ دیا تھا کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حکم دیا ہے کہ چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر عید کرو۔ [2] ہم دیکھتے ہیں کہ فرنگی اور دین دشمن یہود و نصاریٰ ایک ہی دن اپنی عید مناتے ہیں۔ ان کی تقلید میں ہمارے اندر بھی یہ خواہش مچلتی ہے کہ ہم مسلمان ایک ہی دن عید کر یں لیکن ہم لوگ تو شریعت کے پابند ہیں ۔ اسلامی تعلیمات میں کسی بھی دور دراز علاقے والوں کو کسی مخصوص علاقے یا سعودی عرب کے تابع نہیں کیا گیا اور یہ ماضی بعید میں ممکن بھی نہیں تھا۔ خود علماء عرب بھی اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ تمام دنیا میں اہل اسلام کو سعودی عرب کے تابع کر دیا جائے۔ دور صحابہ اور اتباع صحابہ میں ایسا کبھی نہیں کیا گیا تو اب اس حکم کو کیوں تبدیل کر دیا جائے۔ لہٰذا ہر علاقے میں اس کی رؤیت کا اعتبار ہو گا یا پھر قرب و جوار کی رؤیت کا اعتبار کیا ائے گا مگر دور دراز کے علاقوں میں یکجہتی کے طور پر ایک ہی دن عید کرنا فرنگی تہذیب ہے، اسلامی تہذیب میں ایسا ممکن نہیں۔ ( واللہ اعلم) عالم اسلام میں ایک ہی دن عید کرنا اور روزہ رکھنا سوال: عالم اسلام میں اتحاد و یگانگت کا تقاضا ہے کہ ایک ہی دن روزہ رکھا جائے اور ایک ہی دن عید کی جائے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا احکام ہیں؟ جواب: ماہرین فلکیات کے آلات اور ان کے حساب کے ہم پابند نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارے ماہ سال کا حساب ان کے علم سے وابستہ ہے، بلکہ ہمیں اس بات کاحکم دیا گیا ہےکہ چاند دیکھ کر روزہ رکھیں اور چاند یکھ کر عید کریں۔ ہمارا قمری مہینہ کبھی انتیس کا ہوتا ہے اور کبھی تیس دنوں کا ہوتا ہے۔ شرعی اعتبار سے اگر کہیں چاند نظر آ جائے یا کسی دوسری جگہ سے چاند نظر آنے کی خبر پہنچ جائے تو اس علاقہ کے تمام لوگوں کو روزہ رکھنا یا عیدکرنا ضروری ہو جاتا ہے۔چاند دیکھنے سے نیا مہینہ شروع ہو جائے گا البتہ ایسے مقامات جن میں اتنا فاصلہ ہو کہ چاند دیکھنے میں ایک یا دو دن کا فرق پڑ سکتا ہے وہاں ہر علاقے کی اپنی رؤیت ہو گی۔ آج کل اسلامی ممالک اسقدر چھوٹے چھوٹےہیں کہ وہاں کسی بھی جگہ چاند نظر آجائے تو وہ پورے ملک میں نظر آ سکتا ہے لہٰذا ایک ملک میں کسی جگہ چاند نظر آنے سے سارے ملک میں اس کا عتبار کیا جائے گا۔ البتہ مختلف ممالک میں چاند مختلف ہو سکتا ہے مثلاً سعودی عرب اور پاکستان ایک دوسرے سے خاصے فاصلے پر ہیں لہٰذا ان ممالک میں ہر ملک کی اپنی رؤیت ہو گی جیسا کہ حضرت کریب بیان کرتے ہیں:
Flag Counter