Maktaba Wahhabi

92 - 452
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سبح اسم ربک الاعلیٰ پڑھتے تو سبحان ربی الاعلیٰ کہتے تھے۔[1] یہ تسبیح پر مشتمل آیت پڑھنے کے بعد تسبیح بیان کر نے کا عملی نمونہ ہے لیکن یہ حدیث صرف قاری کے لیے ہے، اس سے مقتدی یا سامع کا جواب دینا ثابت نہیں ہو تا، اس لیے مقتدی کے لیے بہتر ہے کہ وہ جواب دینے سے اجتناب کرے۔ اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد امام ابو داؤد لکھتے ہیں: ’’اس حدیث کے بیان کرنے میں حضرت وکیع کی دوسرے طرق سے مخالفت کی گئی ہے ۔ اس حدیث کو حضرت ابو وکیع بن جراح اور ضرت شعبہ، ابو اسحاق سے بیان کر تے ہیں تو اسے مرفوع کے بجائے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بیان کرتے ہیں۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کے نزدیک یہ روایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے۔ اس کے علاوہ حضرت معمر نے بھی حضرت وکیع کی مخالفت کرتے ہوئے اسے موقوف ہی بیان کیاہے۔[2] لیکن حضرت وکیع چونکہ ثقہ راوی ہیں، اس لیے ان کا مر فوع بیان کرنا ایک اضافہ ہے جسے محدثین کے اصول کے مطابق قبول کیا جانا چاہیے، اس لیے یہ روایت مرفوع ہو گی ۔ حاکم نے یہ روایت اسی سند سے بیان کرنے کے بعد لکھا ہے :’’ یہ حدیث شیخین (بخاری و مسلم) کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔[3] امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے حاشیہ میں اسے بر قرار رکھا ہے۔ (تلخیص المستدرک حوالہ مذکور)اگر یہ رویت موقوف بھی ہو ، تو بھی اسے مرفوع کا حکم دیا جائے گا کیونکہ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس میں اجتہاد کو کوئی دخل نہیں ہے لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ آیات کا جواب دینے کا یہ عمل صرف قاری یعنی پڑھنے والے کے لیے ہے خواہ دوران نماز ہو یا اس کے علاوہ خارج از نماز یہ عمل سامع اور مقتدی کے لیے نہیں ہے جیسا کہ ہمارے ہاں کیا جا تا ہے۔ چنانچہ متعدد صحابہ کرام اس حدیث پر عمل پیرا ہیں، حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے متعلق روایت میں ہے کہ انھوں نے جمعہ کی نماز میں سبح اسم ربك الاعلیٰ کے جواب میں سبحان ربی الاعلیٰ کہا۔ [4] اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی وضاحت ہے کہ انھوں نے دوران نماز ’’سبح اسم ربك الاعلیٰ‘‘ کے جواب میں ’’سبحان ربی الاعلیٰ ‘‘کہا۔[5] ان احادیث و آثار کے پیش نظر اگر کوئی نماز میں ’’سبح اسم ربك الاعلیٰ‘‘پڑھتا ہے تو اسے جواب میں ’’سبحان ربی الاعلیٰ‘‘کہنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نمونہ ہے اور متعدد صحابہ کرام نے اس نمونے کو اختیار کیا ہے مگر اسے مقتدیوں کے لیے جواب دینے کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔ اس سلسلہ میں ایک حدیث بیان کی جا تی ہے جس سے مقتدی حضرات کا جواب دینا ثابت کیا جا تا ہے۔ وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے صحابہ کرام کے سامنے سورۃ ’’الرحمٰن‘‘ تلاوت فرمائی۔ صحابہ کرام ہمہ تن گوش ہو کر اسے سنتے رہے، آپ نے فرمایا:’’میں نے یہ سورت جنوں کے سامنے پڑھی تھی تو وہ جواب دینے
Flag Counter