Maktaba Wahhabi

93 - 452
میں تم سے بڑھ کر تھے میں جب بھی ’’فبای آلا ءربکما تکذبٰن‘‘پڑھتا تو وہ جواب میں ’’لا بشی من نعمك ربنا نکذبك ولك الحمد‘‘کہتے ہیں۔[1] اس حدیث کو بیان کرنےکے بعد امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے اس حدیث کے ضعیف ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔ لیکن علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے متعدد طرق کی بنا پر اس حدیث کو حسن کہا ہے۔ (مشکوۃ تحقیق الالبانی) لیکن اس میں یہ صراحت نہیں کہ جنوں کا جواب دینا دوران نماز تھا بلکہ قرائن ایسے ملتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سورت نماز کے علاوہ کسی اور وقت تلاوت کی تھی کیونکہ صرف جنوں کی جماعت کرانا کسی معتبر روایت سے ثابت نہیں ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر سورۃ الغاشیہ کے اختتام پر ’’اللھم حاسبنی حسابا یسیرا‘‘کے الفاظ بطور جواب امام اور مقتدی دونوں کی طرف سے بآواز بلند کہے جا تے ہیں حالانکہ کسی صحیح حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ الغاشیہ کے اختتام پر یہ کلمات کہے ہوں۔ البتہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ایک بیان کتب حدیث میں موجود ہے کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی کسی نماز میں یہ کہتے ہوئے سنا: ’’اللھم حاسبنی حسابا یسیرا‘‘ ۔[2] لیکن اس دعا کا تعلق سورۃ الغاشیہ کے اختتام سے نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کلمات بطور جواب کہے ہوں بلکہ آپ تو ان کلمات کو بطور دعا پڑھتے تھے۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ اس دعاکو تشہد میں سلام سے پہلے پڑھا جا سکتا ہے۔ انھو ں نے اس دعا کو ان دعاؤں میں ذکر کیا ہے جو بوقت تشہد قبل از سلام پڑھی جا تی ہیں۔[3] خلاصہ کلام یہ ہے کہ ’’سبح اسم ربك الاعلیٰ‘‘کی تلاوت کے وقت صرف امام کو’’ سبحان ربی الاعلیٰ ‘‘ کہنے کی اجازت ہے کیونکہ یہ عمل متعدد صحابہ کرام سے ثابت ہے کہ جب وہ اس آیت کی تلاوت کر تے تو سبحان ربی الاعلیٰ کہتے تھے لیکن سورۃ الغاشیہ کے اختتام پر ’’اللھم حاسبنی حسابا یسیرا‘‘جیسے کلمات سے جواب دینا انتہائی محل نظر ہے۔ (واللہ اعلم) کیا نماز تراویح اچھی بدعت ہے؟ سوال: کچھ لوگ بدعت کو تقسیم کر تے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کچھ بدعات اچھی ہوتی ہیں ۔جبکہ کچھ دوسری بدعات بُری ہیں ، دلیل کے طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول پیش کر تے ہیں کہ انھوں نے نماز تراویح کی جماعت کو اچھی بدعت قرار دیا تھا۔ اس کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب: بدعت کی تعریف یہ ہے کہ ہر وہ دینی کام جس کا ثبوت قرآن و حدیث میں موجود نہ ہو، ایسا کام اگر ثواب اور عبادت کی نیت سے کیا جائے تو اسے بدعت کہتے ہیں۔ اس قسم کی تمام بدعات بُری اور نحوست ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں جانے کا باعث ہے۔ ‘‘[4]
Flag Counter