Maktaba Wahhabi

142 - 452
٭کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ اس حدیث کو ظاہر پر محمول کیا جائے یعنی رمضان اور ذوالحجہ ہمیشہ تیس دن کے ہوں گے۔ لیکن معنی ہمارے مشاہدے کے خلاف ہے کیونکہ اکثر اوقات ان میں ایک یا دونوں انتیس ، انتیس دن کے ہوتے ہیں۔ ٭کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ بیک وقت دونوں میں کمی نہیں ہو گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر رمضان کا مہینہ انتیس دن کا ہوا تو ذوالحجہ تیس دن کا ہو گا اور اگر ذوالحجہ انتیس دن کا ہوا تو رمضان کے تیس روزے ہوں گے۔ لیکن یہ معنی بھی درست نہیں کیونکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی سال میں دونوں انتیس انتیس دن کے ہوتے ہیں۔ اگرچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاد امام اسحاق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے اس کا معنی بیان کیا ہے کہ فضیلت و برتری میں کمی نہیں آتی اگر ان میں کوئی ایک یا دونوں انتیس دن کے ہوں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہی معنی درست معلوم ہوتا ہے۔ ہمارا بھی یہی رجحان ہے کہ اگر رمضان کے انتیس دن ہوئے تو اجر و ثواب تیس دنوں کا ملے گا یعنی گنتی میں کمی ہو سکتی ہے لیکن اجروثواب میں کمی نہیں ہو گی۔حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کچھ دوسرے اقوال بھی بیان کئے ہیں جس کی تفصیل فتح الباری ( ص ۱۶۰۔ ۱۶۱ ج۴) میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جمعہ کی دوسری اذان کا جواب سوال: جمعہ کے دن جب خطیب منبر پر بیٹھتا ہے تو اس وقت دوسری اذان دی جا تی ہے ، کیا اس اذان کا جواب دینا ضروری ہے ، کتاب و سنت کی روشنی میں راہنمائی فرمائیں۔ جواب: جمعہ کے دن جب خطیب خطبہ د صلی اللہ علیہ وسلم ینے کے لیے منبر پر بیٹھتا ہے ، اس وقت جو اذان دی جا تی ہے وہی اصل اذان ہے۔ چنانچہ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت دی جا تی تھی جب امام خطبے کے لیے منبر پر بیٹھتا تھا۔ ‘‘[1] واضح رہے کہ اقامت کو اذان کا درجہ دے کر اس اذان کو پہلی اذان کہا گیا ہے ، ہمارے ہاں جو پہلی اذان ہے یہ اصل نہیں بلکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر مسجد سے باہر بازار میں ایک اونچے مقام پر اس اذان کا اہتمام کیا تھا ۔ چنانچہ حدیث میں ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جب لو گوں کی تعداد زیادہ ہو گئی تو انھوں نے مقام زوراء پر ایک تیسری اذان دلوانے کا اہتمام کر دیا۔ [2] بہر حال جب خطیب ، خطبہ کے لیے منبر پر بیٹھتا ہے تو اس وقت جو اذان دی جا تی ہے اس کا جواب دینا ضروری ہے جیسا کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب وہ خطبہ دینے کے لیے منبر پر تشریف فرما ہوئے اور مؤذن نے اذان شروع کی تو انھوں نے اس اذان کا جواب دیا اور فرمایا کہ میں نے اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اذان کا جواب دیتے ہوئے سنا ہے۔[3] اذان کا جواب دینا ضروری ہے جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم اذان سنو تو اسی طرح کہو جیسے مؤذن کہتا ہے ۔[4]
Flag Counter