Maktaba Wahhabi

235 - 452
جواب: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے پہلے تازہ کھجوروں سے روزہ افطار فرماتے ، اگر تازہ کھجوریں نہ ملتیں تو خشک کھجور تنا ول فرما لیتے ، یہ بھی میسر نہ ہو تیں تو پانی کے چند گھونٹ پی لیا کر تے تھے۔ [1] ہمیں چاہیے کہ اس سنت کا احیا کریں ، کھجور جیسے مبارک پھل کو اپنے دستر خوان کا جزو بنا نے کا اہتمام کریں۔ کھجور صرف پھل ہی نہیں بلکہ کھانے کا قائم مقام بھی ہے اگرچہ مغربی تہذیب نے سیب کو بہت شہرت دی ہے جو یقیناً اللہ کی نعمت ہے لیکن ہمیں کھجور کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم) آیت کا مفہوم سوال: قرآن کریم میں ہے ’’اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں ، وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں۔‘‘ (البقرۃ:۱۸۴) اس آیت کی رو سے تندرست اور طاقتور شخص کو روزہ رکھنے نہ رکھنے کا اختیار دیا گیا ہے ، جبکہ ہمارے ہاں معمول اس کے خلاف ہے، اس کی وضاحت کریں۔ جواب: فرضیت روزہ کے ابتدائی دور میں روزہ فرض تو تھا مگر کوئی شخص بلا عذر روزہ چھوڑنا چاہتا تو اسے اجازت تھی کہ روزہ نہ رکھے۔ لیکن اس صورت میں اسے فدیہ دینا پڑتھا تھا جیسا کہ ابن ابی لیلیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے حوالے سے بیان کرتے ہیں : ’’جب رمضان کے روزے فرض ہو ئے تو انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، پھر اگر کوئی مالدار ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا تو وہ روزہ نہ رکھتا، انہیں اس امر کی رخصت تھی۔ ‘‘[2] لیکن اس کے بعد دوسری آیت اتری تو اس رخصت کو ختم کر دیا گیا جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں: جب یہ آیت اتری ’’اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ روزہ کے بدلے کسی محتاج کو کھانا کھلا دیں۔ ‘‘[3] تو ہم میں سے جو شخص روزے نہ رکھنا چاہتا وہ فدیہ دے دیتا حتیٰ کہ اس کے بعد والی آیت اتری تو اس نے اس رخصت کو منسو خ کر دیا۔ ‘‘[4] وہ آیت یہ ہے :(ترجمہ)’’تم میں سے جو شخص اس مہینے میں موجود ہو وہ لازماً روزہ رکھے۔ ‘‘اس آیت کریمہ کے ذریعے ہر تندرست اور گھر میں موجود شخص کے لیے روزہ رکھنا لازم ہو گیا ۔ البتہ یہ رخصت اس شخص کے لیے باقی ہے جو انتہائی ضعیف ہو نے کی وجہ سے روزہ نبھا نہیں سکتا اور اس کی بحالیٔ صحت کی بھی کوئی امید نہیں۔ مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ انتہائی ذہین و فطین تھے اور انہیں فہمِ قرآن کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی دعا بھی حاصل تھی۔ انھوں نے اس آیت کا مفہوم بایں طور بیان کیا ہے ، جس میں نسخ وغیرہ کا شبہ نہیں ہو تا۔ وہ فرما تے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ اس سے مراد انتہائی بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ، ان کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ ہر دن کسی محتاج اور مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ [5]
Flag Counter