Maktaba Wahhabi

109 - 452
چنانچہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’اگر فرائض میں اس طرح مشروع ہو تا تو آپ فرائض میں بھی ایسا ضرور کر تے، اگر آپ نے فرائض میں ایسا کیا ہو تا تو احادیث میں ضرور منقول ہو تا، جب منقول نہیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرائض میں ایسا نہیں کیا۔[1] بہر حال ہمارے رجحان کے مطابق نوافل ادا کر تے ہوئے آیت رحمت پڑھتے وقت اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سوال کیا جا سکتا ہے ، فرائض میں ایسا کرنے کی گنجائش نہیں۔ (واللہ اعلم) نماز عشا کے بعد تا دیر باتیں کرنا سوال: ہمارے گھر میں یہ عادت ہے کہ عشا کی نماز پڑھنے کے بعد باتوں میں لگے رہتے ہیں بعض دفعہ صبح کی نماز باجماعت ادا نہیں ہو تی، کہا جا تا ہے کہ اس کے متعلق شرعی طور پر کوئی پابندی نہیں ، کتاب و سنت کے حوالے سے وضاحت فرمائیں۔ جواب: نماز عشا کے بعد دعوت دین یا مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے متعلق باتیں کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن عمومی طور پر نماز عشاء کے بعد با توں میں مصروف رہنا نا پسندیدہ عمل ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشا سے پہلے نیند اور اس کے بعد باتیں کرنے کو نا پسند فرما تے تھے۔[2] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں اس امر کو ثابت کیا ہے کہ رات عشاء کے بعد علمی مجالس قائم کی جا سکتی ہیں، دوسروں کو وعظ و نصیحت بھی کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے ایک حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز عشاء کے بعد اپنی بیوی سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے کچھ دیر باتیں کیں اور پھر سو گئے۔[3] کتاب العلم میں اس کے متعلق انھوں نے متعدد عنوانات بھی قائم کیے ہیں۔ (واللہ اعلم ) دو آدمی نماز با جماعت پڑھیں تو مقتدی کہاں کھڑا ہو؟ سوال: ہمارے ہاں اکثر دیکھاجا تا ہے کہ جب دو آدمی نماز با جماعت پڑھتے ہیں تو امام کے ساتھ کھڑا ہونے والا مقتدی اس سے ذرا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو تا ہے تاکہ امام اور مقتدی میں کچھ فرق بر قرار رہے، امام کے بالکل برابر کھڑا نہیں ہو تا، اس کے متعلق وضاحت درکار ہے۔ جواب: جب دو آدمی نماز با جماعت ادا کریں تو مقتدی کو امام کے دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے اور اسے پیچھے ہٹ کر نہیں بلکہ بالکل اس کے برابر کھڑا ہونا چاہیے ، جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :’’ جب دو آدمی نماز باجماعت پڑھیں تو مقتدی کو امام کے برابر دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے۔ ‘‘[4] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کا مطلب بیان کر تے ہوئے لکھتے ہیں کہ مقتدی کو امام کے برابر کھڑا ہونا چاہیے ، اس کے آگے یا پیچھے کھڑا نہیں ہونا چاہیے۔ اس بات پر امام نخعی رحمۃ اللہ علیہ کے علاوہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے۔ [5]
Flag Counter