Maktaba Wahhabi

106 - 200
لیے بھاری ہوتے ہیں۔ یہ عقیدہ خالص جاہلانہ نظر یہ اور محض اوہام پرستی ہے، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق اور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ بعض لوگ کسی بات کے مشہور ہو جانے اور اسے اکثر لوگوں کے مان لینے سے مرعوب ہوجاتے ہیں اور سمجھ لیتے ہیں کہ یہ سب لوگ جو کچھ کہہ رہے ہیں ٹھیک ہی ہوگا، حالانکہ اسلام میں کسی کام یا بات کے ٹھیک ہونے یا نا درست ہونے کا معیار لوگوں کی زبان یا آوازئہ خلق نہیں بلکہ کتاب و سنت ہے۔ اگر ایک بات کو لوگوں کی اکثریت اپنا لیتی ہے جبکہ وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف ہے تو وہ ہر گز درست نہیں، ایسے ہی ایک بات قرآن و سنت سے ثابت ہے لیکن لوگوں کی اکثریت اس کی منکر و تارک ہو تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا اور اس بات کے درست ہونے میں کتاب و سنت کا ماننے والا کوئی بھی مسلمان ہر گز کسی شک و شبہ کا شکار نہیں ہوتا۔ اسی طرح جرائد و مجلات میں جو مواد شائع ہوتارہتا ہے اس کے ساتھ اگر کوئی شرعی سند نہ ہو تو محض اخبارات میں شائع ہوجانے سے کوئی بات درست ثابت نہیں ہوجاتی۔ مسائلِ دین کے بارے میں اس بنیادی اصول کے پیش نظر عید کے روز جمعہ آجانے اور ایک ہی دن میں دو خطبے ہونے کو حکمرانوں کے زوال کا باعث اور قوم و ملک کے لیے بھاری کہے جانے کی افواہ بھی توہم پرستی اور عوامی ذہن کی پیداوار ہے، قرآن و سنت سے ایسی باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ ویسے عقلی نقطہ نظر سے بھی یہ بات عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ ایک طرف ہم جمعہ کے دن کو خیر و برکت کا دن کہتے ہیں، اسی طرح عید کے دن کو بھی ہم مبارک دن سمجھتے ہیں اور عید مبارک کہتے ہیں مگر جب یہ دونوں بر کتیں ایک ہی دن جمع ہوجائیں تو خوشی دوبالا ہونی چاہیے تھی مگر توہم پرستوں کے چہرے اتر
Flag Counter