امام شوکانی نے نیل الاوطار میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند میں ایک راوی ایاس بن ابو رملہ مجہول ہے لیکن امام علی بن مدینی نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے۔[1]
اس حدیث سے معلوم ہورہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی بات ارشاد نہیں فرمائی کہ عید و جمعہ کا اکٹھا ہوجانا خطرناک اور باعث نحوست ہے بلکہ سنن ابو داود و ابن ماجہ اور مستدرک حاکم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس کی سند میں ایک راوی بقیہ بن ولید ہے۔ امام احمد بن حنبل اور امام دار قطنی نے اس حدیث کو مرسل کی حیثیت سے صحیح قرار دیا ہے اور امام بیہقی نے اسی کو موصولاً روایت کیا ہے اور جمعہ کی رخصت کو عوالی مدینہ کے لوگوںکے ساتھ خاص بیان کیا ہے لیکن اس کی سند ضعیف ہے۔[2] اس حدیثِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
(( قَدِ اجْتَمَعَ فِيْ یَوْمِکُمْ ہٰذَا عِیْدَانِ ۔۔۔ الخ )) [3]
’’آج تمھارے لیے دو عیدیں (دو خوشیاں) جمع ہوگئی ہیں۔‘‘
اس حدیث کی رو سے تو جمعہ و عید کے اکٹھے ہوجانے کو دو خوشیوں کا اجتماع قرار دیا گیا ہے، اور یہ لوگ ایسے میں پریشان ہو جائیں کہ نہ معلوم کونسی قیامت ٹوٹ پڑے گی۔ یہ کہاں کی محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے؟
ایسے ہی صحیح بخاری میں بھی مذکور ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عہدِ خلافت میں عید و جمعہ اکٹھے آگئے تو انھوں نے بھی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:
(( یَا اَیُّہَا النَّاسُ! اِنَّ ہٰذَا یَوْمٌ قَدِ اجْتَمَعَ لَکُمْ فِیْہِ عِیْدَانِ )) [4]
|