Maktaba Wahhabi

141 - 200
’’قربانی کے دن، یوم عید الاضحی اور اس کے تین دن بعد بھی ہیں۔‘‘ بعض دیگر صحابہ و تابعین و ائمہ سے بھی یہی مروی ہے۔ بعض کے نزدیک قربانی کے دن صرف تین ہی ہیں مگر یہ موقف مذکورہ بالا حدیث کے خلاف ہے لیکن سوچا جائے تو یہ بھی کیا کم ہے کہ پہلے دن نہیں تو دوسرے دن، اور اگر دوسرے دن بھی نہیں تو تیسرے دن ہی سہی مگر قربانی ضرور کریں۔ صرف ۱۰؍ ذوالحج (یوم النحر) کو ہی قربانی کا دن قرار دینے کا موقف سراسر غلط ہے کیونکہ ایک سے زیادہ دنوں میں قربانی کے مشروع ہونے کا ثبوت صرف احادیث میںہی نہیں بلکہ خود قرآن کریم میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے: { وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْم بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ} [الحج: ۲۸] ’’اور چند مقررہ دنوں میں ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں (حج کریں) جو اس نے انھیں بخشے ہیں۔‘‘ اس آیت میں {اَیَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ} دونوں ہی جمع کے صیغے ہیں۔ ’’ایام‘‘ بھی اور ’’معلومات‘‘ بھی، لہٰذا صرف یوم نحر (۱۰؍ ذوالحجہ) ہی کو قربانی کا دن قرار دینا اور اگلے دنوں کا انکار کرنا اس نص قرآنی کے خلاف ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ کے بقول اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ {اَیَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ} سے مراد ایام قربانی ہی ہیں۔ (الجامع لأحکام القرآن المعروف تفسیر قرطبي: ۳/ ۲، ۳ طبع مصر)
Flag Counter