Maktaba Wahhabi

30 - 200
اسلامیہ کو اغیار کی نقالی سے بچایا وہاں اپنی تاریخ کو عملاً زندہ فرمادیا۔ اور دوسری عید (عید الاضحی) حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے اس عظیم کارنامے کی یادگار بھی ہے جس میں وہ پیرانہ سالی کے باوجود حکم الٰہی کا اشارہ پاتے ہی اپنے اکلوتے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی پیش کردیتے ہیں۔ عید الاضحی اور قربانی ہی نہیں بلکہ پورا موسم حج اور اس کے ہر ہر رکن کے ساتھ تاریخ ابراہیمی کے ابواب منسلک ہیں۔ تعمیر کعبہ ہو کہ مقام ابراہیم، چاہ زمزم ہو کہ حجر اسماعیل (حطیم)، صفا و مروہ کی پہاڑیاں ہوں کہ ان کے مابین ’’سعی‘‘، منٰی کی قربان گاہ ہو یا کنکریاں مارے جانے (رمی کیے جانے) والے جمرات۔ الغرض! خود شہر مکہ سمیت یہ سب مقامات خاندان خلیل اللہ علیہ السلام کی تاریخ ہی کے ابواب ہیں اور یہ سب مناسک حج و عمرہ اسی خاندان کی خلوص و وفا سے بھر پور اداؤں کی یادگاریں ہیں۔ اسی طرح ان دونوں عیدوں کے ذریعے خوشی و مسرت کے علاوہ اجتماعی انداز میں حمد ثنائے باری تعالیٰ کے ساتھ ساتھ باہم میل ملاپ کے مواقع مہیا ہوگئے۔ اسی طرح یہ دونوں عیدیں عبادت و ذکر الٰہی کے علاوہ شوکتِ اسلام کے اظہار کا ایک اہم ذریعہ بھی ہیں۔ عید کی اجتماعیت کو مزید وسعت دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کو بھی عید گاہ میں حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ حتی کہ صحیح بخاری و مسلم اور دیگر کتب میں وارد صحیح حدیث کی رو سے وہ عورتیں بھی اس عظیم اجتماعِ عید میں ضرور شامل ہوں جو فطری عذر (حیض) میں مبتلا ہوں لیکن فرمایا کہ وہ نمازتو نہ پڑھیں البتہ: ’’ یَشْہَدْنَ الْخَیْرَ وَ دَعْوَۃَ الْمُسْلِمِیْنَ ‘‘[1]
Flag Counter