Maktaba Wahhabi

122 - 467
بھیجی تھی۔ یہ وہ جنرل تھا جس نے عراق کے والی کے اس حملہ کی قیادت کی تھی جو 1871ء میں ہوا تھا، اس دستاویز میں رقم تھا کہ ’’ یہ علاقہ امام عبداللہ بن فیصل کا ہے۔ اور اس پر حکمرانی کا حق ا ن کا اور ان کے خاندان کا ہے۔ خلیج میں برطانوی ایجنٹ شکسپیئر نے سات ستمبر 1911ء کو شاہ عبدالعزیز سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں شاہ عبدالعزیز نے برطانوی مندوب کو یہ الفاظ کہے۔ ’’اگر الاحساء اور قطیف کے علاقے پر امن طریقے سے واپس نہ کئے گئے تو ان کو اپنی تلوار پر مکمل بھروسہ ہے۔ اور وہ اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں۔ ‘‘ یہ بات برطانوی مندوب سے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ نہ صرف برطانیہ بلکہ سلطنت عثمانیہ کو بھی ایک دھمکی ان لفظوں میں پہنچ جائے۔‘‘ ’’ انہیں اپنی تلوار پر بھروسہ ہے۔‘‘ یعنی وہ اپنے آباو اجداد کی سرزمین طاقت سے واپس لے سکتے ہیں۔ عام حالات میں کوئی سیاستدان اس طرح کھلے الفاظ میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کرتا۔ یہ دراصل ان کی قوت ایمانی کی دلیل ہے۔ شکسپیئر نے شاہ عبدالعزیز کی بات سن کر یہ اندازہ کر لیا تھا کہ وہ ضرور لاحساء کو حاصل کر کے رہیں گے۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے برطانوی حکومت کو ایک رپورٹ ارسال کی۔ جس میں اس نے شاہ عبدالعزیز کی تعریف کرتے ہوئے برطانوی حکومت کو تجویز پیش کی تھی۔ ’’ہمیں ان سے تعلقات استوار کرنے چاہیں۔‘‘ الاحساء پر قبضہ کے بعد 1914ء میں شکسپیئر حفر الباطن چلا گیا پھر وہاں سے سعودی فوجی کیمپ میں پہنچا جہاں شاہ عبدالعزیز کی قیادت میں نجد، سدیر عارض کے
Flag Counter