Maktaba Wahhabi

198 - 467
پھر واپس اپنے ٹھکانوں پر آجائے۔ اس سے صرف علی بن حسین کو ڈرانا مقصود تھا۔ تاکہ وہ ہتھیار پھینکنے اور جدہ کو حوالے کرنے پر مجبور ہو جائے۔ اسی دوران کچھ دستوں نے شاہ عبدالعزیز کے حکم سے ساحلی گاؤں کی طرف مارچ کیا۔ ان پر قبضہ بھی کر لیا۔ جس میں قنفذۃ نامی بندر گاہ بھی تھی۔ یہ جدہ کے بعد سب سے بڑی بندر گاہ ہے جو جنوب میں اللیث نامی جگہ پر واقع ہے۔ اسی طرح رابغ اور ینبوع جدہ کے شمال میں ہیں۔ ان پر بھی قبضہ کر لیا گیا۔ ان علاقوں کے لوگوں نے شاہ عبدالعزیز کی بیعت کی۔ قنفذۃ کی بندر گاہ پر قبضہ کرنے کا مطلب یہ بھی تھا کہ جدہ کے مقابلے میں کوئی متبادل بندر گاہ ہو۔حج کا موسم بھی قریب آرہا تھا۔ اس لیے شہزادہ عبدالعزیز چاہتے تھے کہ بحری جہازوں سے آنے والوں کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو۔ انہوں نے اسلامی ملکوں کو اطلاع روانہ کی کہ مکہ مکرمہ تک جانے والے راستے پرامن ہیں۔ ان تمام کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس سال بہت بڑی تعداد میں حجاج تشریف لائے اور امن وامان کےماحول میں حج کا فریضہ ادا کیا۔ وہ ہر طرح سے مطمئن اپنے ملکوں کو واپس گئے۔ ان تمام خوش اسلوبیوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ مسلم ممالک ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کو علم ہو گی کہ شاہ عبدالعزیز ایک ایماندار اور عوام الناس کی بہتری سے محبت کرنے والے سربراہ ہیں۔ ان کی حکمرانی کی بنیاد عدل و انصاف پر ہے۔ ان کے خلاف جو بھی باتیں کی جارہی تھیں وہ مخالفین کی جانب سے پھیلائے ہوئے زہر یلے پروپیگنڈ ے کے علاوہ اور کچھ نہیں تھا جو عرب اور اسلام کےدشمن پھیلا رہے تھے۔ جو انتظامات خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان میں
Flag Counter