Maktaba Wahhabi

20 - 467
اسلامی عقیدہ رکھتے ہیں تو ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ اس کے پر چار کے لیے جہاد کریں۔ انہوں نے شیخ محمد کا ساتھ دینے کا ارادہ کیا اور ان درختوں کو کاٹنا شروع کر دیا جن سے لوگ منتیں مانگا کرتے تھے۔ ان کی ان کارروائیوں کی شہرت ہوئی، شور اٹھا اور دور دور تک لوگ اس کا تذکرہ کرنے لگے۔ الاحساء کے حکمران سلیمان بن محمد تک بات پہنچی تو وہ غصے سے لال پیلا ہو گیا۔ اس نے عینیہ کے سربراہ کو پیغام بھیجا کہ شیخ محمد کو ان کی تبلیغی سرگرمیوں سے روکے اور لوگوں کو ان کی حالت پر چھوڑ دے تاکہ لوگ اپنی روایات کے مطابق عبادت کر سکیں اور اگر شیخ محمد باز نہ آئے تو اسے قتل کر دیا جائے۔ شیخ محمد کو جب اس دھمکی کی اطلاع ہوئی تو وہ وقتی طور پر پریشان ہوئے کیونکہ ان کو الاحساء کے حکمران کی طاقت کا بخوبی انداز ہ تھا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ الاحساء کے حکمران کا سامنا کرنا اتنا آسان کام نہیں۔ بنابریں شیخ محمد نے عینیہ کے سربراہ سے مشورہ کرنے کےبعد عینیہ کو خیر باد کہا اور درعیہ تشریف لے گئے جہاں آل سعود کی حکومت تھی۔ وہ درعیہ میں احمد بن سویلم کے گھر گئے۔ وہاں ان کے پیروکار پہلے ہی سے موجود تھے۔ ان کی تعلیمات سے شہزاد ہ محمد بن سعود بھی متاثر تھے جو درعیہ کے حکمران تھے۔ شہزادہ محمد کے دوسرے بھائیوں مشاری اور شنیان اور فرحان بھی اس دعوت سے متاثر تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی سے کہا ’’ہمیں اس عظیم اصلاحی پیغام کا ساتھ دینے کے علاوہ اس کی ہر ممکن امداد کرنی چاہیے۔‘‘ نجد کے مشہور محقق بن بشر اپنی کتاب ’’عنوان المجد فی تاریخ نجد‘‘ میں
Flag Counter