Maktaba Wahhabi

26 - 467
1788ء میں انہوں نے تھکاوٹ کی وجہ سے اپنے بیٹے سعود کے لئے بیعت لی اور حکمرانی کی ذمہ داریاں ان کے سپرد کیں۔ 1803ء میں وہ درعیہ کی مسجد میں عصرکی نماز ادا کر رہے تھےکہ ایک نامعلوم آدمی نے ان پر خنجر سے وار کیا اس شخص کے بارے میں کوئی پتا نہ چل سکا کہ وہ کون تھا لیکن اس خنجر کا زخم جان لیوا ثابت ہوا۔ مشہور مؤرخ ابن بشر نے اس واقعہ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنی کتاب میں اس واقعہ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔ ’’ اس سال رجب کے مہینے کے آخر میں امام عبدالعزیز بن محمد قتل کئے گئے۔ ان کا قتل مسجد طریف،درعیہ میں ہوا۔ ان کو اس وقت قتل کیا گیا جب وہ عصر کی نماز کی ادائیگی کے دوران سجدہ کی حالت میں تھے۔ یہ قاتل کرد تھا موصل کا رہنے والا تھا ’’ اس کا نام عثمان تھا۔‘‘ ’’وہ اس قتل کی نیت سے آیا تھا۔ اس شخص نے دوویشوں سا لبادہ اوڑھا ہوا تھا۔ امام عبدالعزیز نے اس کی عزت و خاطر کی اور اسے پاک صاف لباس زیب تن کروایا۔ درویش نے ارکان اسلام سیکھنے کی خواہش ظاہر کی اور نماز کی ادائیگی کا طریقہ سیکھا۔ یہاں کے مکینوں نے بھی اسے مسافر سمجھ کر اس کی خاطر و مدارات کی لیکن دل کے اندر کی بات تو خدا ہی جانتا تھا۔ دوران نماز وہ تیسری صف سے چھلانگ لگاتے ہوئے امام عبدالعزیز پر چاقو سے حملہ آور ہوا اور پیٹ کے نچلے حصہ پر زخم کاری لگایا اس وقت مسجد میں تمام نمازی حالت سجدے میں تھے۔ اور وہ یہ اندازہ بھی نہ لگا سکے کہ کیا ہوا ہے۔ امام عبدالعزیز پر حملہ کرنے کے بعد اس شخص
Flag Counter