Maktaba Wahhabi

263 - 467
والد عبدالرحمٰن الفیصل سے ریاض حکمرانی کا چھن جانا تھا جوآل رشید کے ہاتھوں میں چلا گیا تھا۔ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ کویت چلے گئے۔ وہاں امیر کویت کے مہمان کے طور پررہنے لگے انہوں نے آل رشید سےمقابلے کا ارادہ کر لیا۔ اگر چہ ایک دفعہ وہ ناکام ہوئے لیکن انہوں نے والد کی چھوٹی سی فوج کو دوبارہ منظّم کیا اور اپنی حکمرانی کی بازیابی کےلئے جد وجہد شروع کی۔ ان کی قوت ایمانی دشمن کوچیلنج کرتی تھی۔ انہوں نے یہ عزم کر لیا کہ یا تو موت ہو گی یا ریاض پر کامیابی۔ یہاں تک کہ انہوں نے ریاض پر دوبارہ قبضہ کرلیا اور اپنے آباو اجداد کی عزت و توقیر بحال کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان کی دوسری خوبی ان کی شجاعت تھی۔ جو بیشتر مواقع پرسامنے آئی تھی۔ میں بطور مثال ایک واقعہ کا تذکرہ ضروری سمجھتا ہوں۔ الحریق نامی لڑائی میں جب ان کو گھیرے میں لے لیا گیا تو ان کے ساتھی فرار ہونے لگے۔ وہ اپنے فوجیوں کے سامنے گھوڑے پر آئے اور تلوار لہراتے ہوئے انہوں نے پکارا ’’اے بھائیو! جو عبدالعزیز کو چاہتا ہے وہ آگے آئے۔ جو آرام و سکون چاہتا ہے وہ اپنے گھر چلا جائے۔ اللہ کی قسم میں اس جگہ سے اس وقت تک نہیں جاؤں گا۔ جب تک کامیابی حاصل نہ کر لوں۔ یا شہید نہ ہو جاؤں ‘‘ اس پر فوجیوں میں جوش و خروش بڑھا اور وہ دشمن پر حملہ آور ہو گئے اور آخر کار فتح نے ان کے قدم چومے۔ ایک دفعہ یہ بھی ہوا کہ بعض قبیلوں کے افراد خود مختاری مانگنے لگے۔ شاہ عبدالعزیز نے انکار کر دیا۔ قبائلیوں نے ان پر حملہ کر دیا شاہ کے فوجیوں کو شکست ہوئی۔ قبائلوں کی فائرکی ہوئی ایک گولی شاہ عبدالعزیز کے پیٹ میں لگی۔ ان کے کمر
Flag Counter