Maktaba Wahhabi

3 - 467
مصادر استعمال کی گئی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شاہ عبدالعزیز بانی مملکت سعودی عرب کی زندگی کے ایک شعبے کے احاطے کے لئے مصنف نے نہایت عرق ریزی سےکام لیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عالم اسلام کی نئی نسل کو فی الوقت ایسی کتاب کی شدید ضرورت تھی جو مختصر ہوتے ہوئے بھی ایک مکمل، جامع مانع اور مبسوط کتاب ہو۔ میں امید کرتا ہوں کہ مولف کے اس نظریہ کے پیش نظر تحقیق کا سلسلہ اور آگے برھے گا۔ شاہ عبدالعزیز پر کتاب لکھنے کی مزید خواہش ہو گئی رہبری و رہنمائی کے لئے مولف کی یہ کتاب رہنمائی کا کام دے گی اور پاکستان اور پاکستانی مصنفین کے وقار میں اضافے کا ذریعہ ثابت ہو گی۔ آج سے صرف سو برس پہلے کے سعودی عرب کو دیکھا جائے تو وہ چودہ سو برس پہلے عرب کے خدوخال پیش کرے گا۔ یہاں کے لوگ سو سال پہلے افتراق اور کشیدگی کا شکار تھے۔ قتل و غارت ان کا شعار تھا۔ انہیں خانہ بدوشوں کی زندگی مرغوب تھی۔ ان کا تمام تر اثاثہ ان کی بھیڑ بکریاں تھیں۔ لیکن آج وہاں کے معاشرتی ڈھانچے کو دیکھیں تو اس میں سراسر انقلاب نظر آتا ہے۔ خانہ بدوشوں کی معاشرتی حالت شاہ عبدالعزیز کی مساعی سے ایسی بدلی ہے کہ وہ مستقلاً ایک متمدن، مہذب اور ممتاز قوم بن گئے ہیں۔ اب وہ زراعت و تجارت نہایت عمدہ اصولوں پر کرتے ہیں۔بڑی صنعتیں چلا رہے ہیں۔ عسکری لحاظ سے مضبوط ترین قوم ہیں اور دنیا کی تمام سہولیات سے بہرہ مند ہیں۔ یہ سب کچھ صرف آل سعود کی کوششوں کانتیجہ ہے جس کا مرکزی نقطہ شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل سعود کی ذات گرامی ہے۔ سو سال پہلے جزیرہ نمائے عرب میں افرا تفری کا یہ عالم تھا کہ وہاں جان و مال محفوظ نہ تھی۔ بدوؤں کی لو ٹ مار سے حجاج کرام تک محفوظ نہ تھے۔ کسی حاجی کو
Flag Counter