Maktaba Wahhabi

35 - 467
درعیہ کی لڑائی 1815ء میں مصر کے حکمران محمد علی پاشا نے اپنے بیٹے ابراہیم پاشا کی قیادت میں ایک فوج ترتیب دی اور اس کو حجاز روانہ کر دیا۔ ایسا کرنا ان احکامات کی پابندی تھی جو ترکی کی سلطنت عثمانیہ نے اس کو دئیے تھے۔ امام عبداللہ مقابلہ کے لیے نکلے۔ 1816ء میں حناکیہ کے قریب دونوں فوجوں کے درمیان لڑائی ہوئی۔ سعودی فوجی ابراہیم پاشا تک پہنچنے ہی والے تھے کہ مصری افواج نے بھاری توپ خانےکا استعمال شروع کر دیا۔ ابن بشر لکھتے ہیں ’’اس توپ خانہ کی مار عجیب تھی د و آوازیں نکلتی تھیں ایک جب فائر کرتے تھے اور ایک جب گولہ پھٹتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ ان توپوں کی گھن گرج میں ابراہیم پاشا کی فوج آگے پڑھنے لگی۔ وہ الرس نامی جگہ تک پہنچی۔ ترکوں کی گولہ باری اتنی شدید تھی کہ ابن بشر کے بیان کے مطابق ’’وہ ایک رات میں پانچ سو کی تعداد میں گولے برساتے تھے۔‘‘ الرس کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد امام عبداللہ عنیزہ واپس آگئے اور ابراہیم پاشا کی فوج آگے بڑھتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ القصیم تک پہنچ گئے اور امام عبداللہ واپس درعیہ آگئے۔ وہاں آنے کا مقصد یہ تہا کہ دوبارہ فوجوں کو ترتیب دیں اور کسی ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کر سکیں۔ ابراہیم پاشا کی فوجیں قصیم پر قبضے کے بعدالوشم سدیر پر قابض ہو گئیں لیکن درعیہ کے طرف بڑھتے وقت اہل ضرمی نے شدید مزاحمت کی اور ایک رات مغر ب وعشاء کے درمیان پانچ ہزار کے قریب کار تو س چلائے گئے۔ ضرمی میں قتل عام
Flag Counter