Maktaba Wahhabi

36 - 467
کے بعد ابراہیم پاشا کی فوجیں درعیہ کی طرف بڑھنے لگی۔ وہ وادی حنیفہ کے راستے آگے بڑھتے چلے گئے۔ امام عبداللہ نے ان سے مقابلہ کرنے کےلیے مکمل تیاری کر لی۔ انہوں نے منظّم انداز میں دفاعی انتظامات کر لئے تھے۔ جب لڑائی شروع ہوئی تو ابراہیم پاشا کے فوجی درعیہ پر گولیاں برساتے رہے۔ خاص طور پر غبیرا، مغیصی،حریقہ سحسہ،سلمانی،باب سحمان اور باب الطہرہ درعیہ کا چھ ماہ تک محاصرہ جاری رہا۔ اس دوران لڑائی بھی جاری رہی۔ ایک دن ابراہیم پاشا کے اسلحہ کے ذخیرہ میں آگ لگ گئی۔ ابن بشر لکھتے ہیں ’’تین دن تک دھماکوں کی آوازیں آتی رہیں ابراہیم پاشا کا بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا۔ ابراہیم باشا کی فوجیں پہاڑوں کی طرف نکل گئیں۔ یہ اہل درعیہ کے لیے اچھا موقعہ تھا کہ وہ اس کی فوجوں پر دھاوا بول دیں۔ ‘‘ لیکن ابن بشر کے بیان کےمطابق ’’قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔‘‘ اس دوران ابراہیم پاشا نے اسلحہ اور افرادی قوت کے لیے کمک طلب کی۔ یہاں تک کہ مصر بصرہ اور زبیر سے ان کو کمک پہنچی۔ درعیہ والوں میں سے کچھ لوگوں نے ابراہیم پاشا کو صلح کی پیشکش کی۔ وہ راضی ہو گیا۔ لیکن امام عبداللہ بن مسعود راضی نہ ہوئے چنانچہ ابراہیم پاشا نے احکامات دے ئیے کہ تمام توپوں کا رخ اس طرف موڑ دیا جائے جدھر امام عبداللہ تھے۔ لیکن اس دوران جب ابراہیم پاشا مایوس ہوا تو اس نے مکروفریب سے کام لیتے ہوئے امام عبداللہ کو پیغام بھیجا کہ وہ صلح کے لیے بات چیت کرنا چاہتا ہے۔ 9ستمبر 1818ء کو امام عبداللہ درعیہ سے نکلے۔ابراہیم پاشا نے ان کا اپنے خیمہ میں استقبال کیا۔ شروع میں اس نے یہ ظاہر کیا کہ
Flag Counter