Maktaba Wahhabi

54 - 467
احمد عیسیٰ اپنی کتاب ’’معجزۃ فوق الرمال میں ‘‘ صفحہ 47 پر لکھتے ہیں۔ ’’کویت میں قیام ان کی زندگی کا پہلا سیاسی اسکول تھا۔ وہ اس اسکول میں خلیج عرب میں انگریز،جرمن،روس اور عثمانیوں کے درمیان کشمکش کے بارے میں غور کرتے رہے۔ وہ روس کی اس خواہش پر خاص طور پر نظر رکھے ہوئے تھے کہ وہ کس حد تک خلیج عرب کے گر م پانی تک پہنچنے کا متمنی ہے۔ وہ جرمنوں کی اس خواہش پر بھی نظر رکھے ہوئے تھے کہ وہ عرب ملکوں کو اپنے زیر اثر لانا چاہتا تھا۔ اس کے لیے اس کی خواہش تھی کہ برلن سے بغداد تک ریلوے لائن بچھائی جائے۔ لیکن انگریز اس کے مخالف تھے۔ کیونکہ اس علاقہ میں ان کی اپنی مصلحتیں تھیں۔‘‘ شاہ عبدالعزیز کے والد نے ان کی سیاسی تربیت اس انداز سے کی کہ وہ لوگوں سے کامیابی کے ساتھ مکالمہ کر سکیں۔ شاہ عبدالعزیز جو نوجوانی کے طرف رواں دواں تھے اپنے آپ کو ایک ایسے روشن خیال سیاستدان کی صورت میں تیار کر رہے تھے۔ جو وقت کے تقاضوں کو پورا کر سکے اور کسی مایوسی کا شکار ہوئے بغیر مشکلات کا سامنا کر سکے۔ آپ فرماں بردار شہزادہ تھے جو خاموشی سے کام کر رہے تھے۔ اپنے ملک کے واقعات و احوال سے اپنے آپ کو باخبر رکھ رہے تھے۔ ملکی خبریں وہ تجارت کے لیے آنے والے قافلوں سےحاصل کرتے تھے۔ یا وہ ان قبائل سے جو جزیرہ نمائے عرب میں ایک جگہ سے دوسری جگہ تک سفر میں مصروف رہتے تھے۔ شہزادہ عبدالعزیز اپنے والد گرامی کے سائے میں بڑی منظّم زندگی گزار رہے تھے۔ لیکن انہوں نے یہ زندگی صبرو سکون سے گزاری کیونکہ وہ دوسرے شہزادوں
Flag Counter