Maktaba Wahhabi

227 - 665
کے معنی یہ ہیں کہ وہ 1878؁ء میں پیدا ہوئے۔ان کی والدہ کی وفات کے بعد ان کی خالہ انھیں اپنے ساتھ شاہ پور لے گئی تھیں۔شاہ پور اس وقت ضلع سرگودھا میں تھا۔یہ معلوم نہ ہوسکا کہ ان کے والد (امام الدین) کب فوت ہوئے، نہ یہ پتاچلا کہ یہ کتنے بہن بھائی تھے اور ان کے رشتے داروں میں کوئی شخص پڑھا لکھا بھی تھا یا نہیں؟ اس کا بھی صحیح طور سے علم نہیں ہو سکا کہ ان کا مولد گجرات شہر تھایا علاقہ گجرات کا کوئی اور مقام، یہ بھی معلوم نہیں کہ والدہ کی وفات کے وقت بیٹے کی کیا عمر تھی۔ اس بات کا البتہ پتا چلتا ہے کہ انھیں ابتدائے عمر ہی سےحصول علم کا شوق تھا اور شاہ پورکے بعض اساتذہ سے انھوں نے ابتدائی کتابیں پڑھیں۔لیکن یہ معلوم نہیں کہ کتنا عرصہ شاہ پور رہے اور کس استاذ سے کیا کچھ پڑھا۔ یہ آج سے کم و بیش ایک سو پچیس سال قبل کی بات ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا شرالدین کی خالہ کو بھی علم سے دلچسپی تھی اور خود مولانا کے اسلاف بھی علم و علماء سے تھوڑا بہت تعلق رکھتے تھے، اسی لیے مولانا ممدوح کا بچپن میں اس طرف رجحان ہوا۔ شاہ پور کے اساتذہ سے چند ابتدائی کتابیں پڑھنے کے بعد ان میں حصول علم کا جذبہ مزیدبیدار ہوا اور وہ طویل سفر طے کر کے ملتان آگئے۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب نہ سڑکیں تھیں، نہ راستے ہموار تھے۔ یعنی موجودہ دور کی کوئی بھی سفری سہولت حاصل نہ تھی۔ لیکن تعجب کی بات ہے کہ اس دور میں انھیں کسی طرح پتا چل گیا کہ ملتان شہر میں کسی عالم دین کا سلسلہ تدریس جاری ہے اور وہ عالم دین تھے مولانا سلطان محمود ملتانی، جن کے لائق فرزند مولانا عبدالحق محدث ملتانی بھی وہیں باپ کے ساتھ خدمت تدریس سر انجام دیتے تھے۔ حضرت مولانا ابو سعید شرف الدین نے منطق کی شرح جامی مولانا عبدالحق ملتانی سے پڑھیں۔نیز مشکوٰۃ کا کچھ حصہ بھی انہی سے پڑھا۔ ترجمہ قرآن اور تفسیر جلالین کے آخری حصے کی تکمیل مولانا سلطان محمود ملتانی سے کی۔ان کے ایک استاذ مولانا خلیل الرحمٰن مظفر گڑھی تھے۔ ان سے جو کتابیں پڑھیں وہ یہ ہیں: قطبی میر قطبی، ہدیہ سعیدیہ، شرح ہدایۃ الحکمت، مبیذی، نورالانوار، تفسیر جامع البیان اور مشکوۃ شریف کے تین ربعے۔بعد ازاں پھر مولانا عبدالحق ملتانی کی خدمت میں حاضری دی اور ان سے مندرجہ ذیل کتابیں پڑھیں۔ (1)جامع ترمذی، (2)صحیح مسلم، (3)سنن ابی داؤداور (4)سنن نسائی کے چند اجزا۔ علاوہ ازیں مختلف فنون کی چند کتابیں۔ ملتان سے دہلی کاعزم کیا جسے اس عہد میں علم و فضل کےگہوارے کی حیثیت حاصل تھی۔وہاں جن اساتذہ کے حضور زانوئے شاگردی طےکیے۔وہ تھے مولانا بشیر سہسوانی، حافظ عبداللہ بیگ،
Flag Counter