Maktaba Wahhabi

228 - 665
مولانا حکیم محمد ابراہیم سنبھلی، ڈپٹی نذیر احمد، حکیم عبدالرشید خاں، حافظ عبدالوہاب نابینا، مولانا منفعت علی رحمۃ اللہ علیہم ان حضرات سے بعض کتابیں دوبارہ پڑھیں اور درس نظامی کی بعض کتابوں کی تکمیل فرمائی۔ حضرت میاں سید نذیر حسین اور (صاحب عون المعبود)مولانا شمس الحق ڈیانوی سے بھی استفادہ کیا۔ حضرت شیخ حسین عرب یمنی سے اجازہ و سند حدیث حاصل کی۔ تکمیل تعلیم کے بعد دہلی ہی کو اپنا مسکن قراردے لیا اور وہاں کے ایک عالم دین مولانا عبدالغفور نے اپنی دختر ان کے عقد میں دے دی۔ سلسلہ تدریس کا آغاز اس طرح ہوا کہ ضلع علی گڑھ کے ایک قصبے”دتاؤلی“میں ایک صاحب مولانا محمد یونس خاں سکونت پذیر تھے۔ان کے دو صاحب زادوں مولوی محمد انس خاں اور مولوی محمد مونس خاں کو صرف و نحو کی ابتدائی کتابوں سے لے کر حدیث کی کتابوں تک تعلیم دی۔کچھ عرصہ دہلی کے مدرسہ ریاض العلوم میں فریضہ تدریس انجام دیا۔حضرت میاں نذیر حسین رحمۃ اللہ علیہ کی مسند درس پر بھی فائز رہے۔بعد ازاں دہلی کے پھاٹک حبش خاں میں 3۔ربیع الاول 1250؁ ھ(20۔جولائی 1931؁ء)کو”مدرسہ سعید یہ عربیہ “کے نام سے خود اپنا مدرسہ جاری کیا۔ اس مدرسے میں مولانا ممدوح سے بے شمار حضرات نے کتب احادیث پڑھیں اور ان سے سند یں لیں، پھر ان کے شاگردوں نے بہت سے اصحاب علم کو پڑھایا۔ حضرت ممدوح کے شاگردوں میں حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، ان کے برادر کبیر حافظ عبداللہ بھوجیانی، مولانا عبدالعزیز سعیدی، حضرت سید محب اللہ شاہ راشدی، سید بدیع الدین شاہ راشدی، شیخ الحدیث مولانا شرف الدین دہلوی کم و بیش ساٹھ سال مسند درس پر متمکن رہے۔اس اثنا میں برصغیر کے جن شائقین علم نے ان سے فیض حاصل کیا، ان کو شمار میں لانا ممکن نہیں۔ پھر آگے چل کر ان کے تلامذہ نے جو تدریسی اور تحریر ی خدمات سر انجام دیں، اس کا بھی احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اب ان کی تصانیف کی طرف آتے ہیں: تدریس کے علاوہ حضرت مولانا تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی سرگرم رہے۔ ان کی تصنیفی مساعی خدمت حدیث پر مشتمل ہیں۔، جس کی تفصیل اس طرح ہے۔ 1۔تنقیح الرواۃ: یہ مشکوٰۃ شریف کی عمدہ ترین شرح ہے جو انھوں نے ڈپٹی نذیر احمد صاحب کی نگرانی میں مکمل کی تھی۔اس کی پہلی جلد چھپ گئی تھی۔دوسری جلد کا مسودہ ڈپٹی صاحب نے دہلی کے مطبع مجتبائی کے مالکوں کو طباعت کے لیے دیا تھا کہ ان سے گم ہو گیا۔اس کا مولانا کو
Flag Counter