Maktaba Wahhabi

314 - 665
دور کے علمائے اہلحدیث اپنے مسلک کی اشاعت وتبلیغ کے لیے ہر وقت تیار رہتے اور بڑے شوق سے تکلیفیں اٹھا کر دور دراز کے غیر معروف مقامات کا عزم کرلیتے تھے۔ مولانا عبدالحق ہاشمی پچیس سال احمد پور شرقیہ کے منصب خطابت پر متمکن رہے۔ان کی خطابت کی وجہ سے گھر گھر اسلام کا چرچا ہوااور لوگ کثیر تعداد میں صراطِ مستقیم پر گامزن ہوئے۔اس اثناء میں ان کی مسند درس نے بھی خوب شہرت پائی اور بہت سے اہل علم نے ان کے حضور زانوئے شاگردی طے کیے۔ان کے شاگردوں کی صحیح تعداد کاتو شاید کسی کو بھی علم نہیں ہوگا، لیکن ان کے جن معروف شاگردوں کا پتا چل سکا ہے ان میں شیخ الحدیث مولانا سلطان محمود(جلال پورپیراوالا)مولانا سید بدیع الدین شاہ راشدی پیر آف جھنڈا، مولانا عبدالکریم(سابق مدرس جامعہ سلفیہ فیصل آباد) اور خود مولانا ہاشمی کے فرزند کبیر مولانا عبدالرزاق شامل ہیں۔ مولانا ہاشمی کا دائرہ تبلیغ اور حلقہ خطابت بہت وسیع تھا۔وہ سرائیکی زبان کے بہت بڑے مقرر اور معروف واعظ تھے۔ملتان، مظفر گڑھ، ڈیرہ غازی خاں، جام پور، جھنگ، شورکوٹ، بہاول پور، بہاول نگر وغیرہ کے علاقوں میں ان کی دعوت وتبلیغ کی دھوم تھی اور لوگ شوق اور غور سے ان کے مواعظ سنتے اور ان کے طرزوعظ سے متاثر ہوتے تھے۔ ان علاقوں کے علاوہ متحدہ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں بھی وہ وعظ وارشاد کے لیے جاتے اور تبلیغی جلسوں میں شرکت فرماتے تھے۔پنجاب میں امرتسر اوربٹالہ کے علاوہ آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کے سالانہ جلسوں میں دہلی اور علی گڑھ میں بھی ان کو دعوتِ شرکت دی جاتی تھی اور وہ ان جلسوں میں تقریریں کرتے تھے۔ ریاست بہاول پور میں بہت سے علماء پیدا ہوئے اور ان میں سے بعض علماء نے بڑی خدمات انجام دیں لیکن مولانا عبدالحق ہاشمی ان میں ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔وہ کثیر الجہات عالم تھے اور اللہ نے ان کو بہت سی خصوصیات سے نوازا تھا۔وہ سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور کھلے جنگل میں اونٹ چراتے تھے۔طلباء کی جماعت ان کے ہم رکاب ہوتی تھی اور وہ اونٹ چرانے کے ساتھ ساتھ انھیں پڑھاتے بھی جاتے تھے۔کتابوں پر استحضار کا یہ عالم تھا کہ ان کے صفحوں کے صحیفے زبانی یاد تھے اور مشکل سے مشکل مسائل چند لمحوں میں آسانی سے حل کردیتے تھے۔طلباء ان کے طریق تدریس سے بہت مطمئن تھے۔ تدریس کے علاوہ ان میں دوسری خوبی وعظ کی تھی۔وہ خالص کتاب وسنت کی روشنی میں تقریر کرتے تھے اور لوگوں کی سمجھ اور ذہن کے مطابق آسان زبان میں انھیں امور خیر کی تلقین فرماتے تھے۔ان کی زبان میں اتنی مٹھاس تھی اور اتنا اثر تھا کہ ان کے وعظ سن کر بے شمار بے عمل مسلمان
Flag Counter