اس زمانے میں تحصیل موگا کے ایک قصبے ”سنگھاں والا“کے چند علمائے کرام اور واعظین کا بڑا شہر تھا جو آپس میں قریبی رشتے دار تھے، ان میں ایک بزرگ مولانا عبدالحق تھے جو ہمارے دوست قاری محمد عزیز (گلشن راوی لاہور) کے والد محترم تھے اور حافظ محمد یحییٰ عزیز میر محمدی کے گاؤں موضع میرمحمد(ضلع قصور) میں ان کاسلسلہ تدریس جاری تھا۔ مکھو میں شاہ عبدالرحیم سے چند کتابیں پڑھنے کے بعد علی محمد سعیدی مولانا عبدالحق کی خدمت میں موضع میر محمد آگئے۔ان سے انھوں نے تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو اور منطق و فلسفہ کی وہ کتابیں پڑھیں جو اس وقت دینی مدارس میں پڑھائی جاتی تھیں(افسوس ہے مولانا عبدالحق اور ان کے رشتے دارعلمائے کرام اگست 1947ءکے ہنگامے میں سکھوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر گئے) موضع میر محمد سے علی محمد سعیدی نے امرتسر کا رخ کیا۔وہاں مدرسہ غزنویہ میں حضرت مولانا نیک محمد، مولانا عبدالغفور غزنوی، مولانا محمد حسین ہزاروی اور بعض دیگر اساتذہ کی مساند تدریس آراستہ تھیں، ہمارے ممدوح مولانا علی محمد سعید ی نے ان اساتذہ گرامی کے سامنےزانوئے شاگردی طے کیے۔امرتسر میں حضرت مولا نا ثناء اللہ امرتسری سے بھی ان کو حصول فیض کا موقع ملا۔ اب ان کے لیے تحصیل علم کی راہیں کشادہ ہو گئی تھیں۔ چنانچہ امرتسر کے مدرسہ غزنویہ سے نکلے اور دہلی پہنچے۔ وہاں حضرت مولانا احمد اللہ پرتاپ گڑھی مولانا سید تفریظ احمد سہسوانی اور مولانا بشیر احمد دہلوی سے استفادہ کرنے لگے۔لیکن دہلی میں انھوں نے سب سے زیادہ حضرت مولانا ابو سعید شرف الدین صاحب سے اخذ فیض کیا۔ حضرت مولانا شرف الدین کا مدرسہ اس فقیر نے 1941ءمیں دیکھاتھا جو انھوں نے مدرسہ سعید یہ کے نام سے دہلی کے علاقہ پل بنگش میں قائم کیا تھا۔ مولانا علی محمد نے اس مدرسے میں داخلہ لیا اور کافی عرصہ حضرت مولانا کی خدمت میں رہے۔ ان سے خوب استفادہ کیا، انہی سے 1939ءمیں سند حدیث لی اور اسی مدرسے کی طرف اپنے آپ کو منسوب کیا اور مولانا علی محمد سعیدی کے نام سے شہرت پائی۔ فارغ التحصیل ہونے کے بعد 1939ءمیں وہ اپنے وطن واپس آگئے۔اب اٹھائیسں برس کی عمر میں ان کی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ انھوں نے اپنے اولین استاد صوفی ولی محمد اور ایک اور بزرگ مولوی کمال الدین کے مشورے سے اپنے گاؤں میں دینی مدرسہ جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ چنانچہ پیر محبوب شاہ مکھوی اور سنگھاں والا کے مولانا عبدالحق کو گاؤں تشریف لانے کی دعوت دی اور 1940ءمیں مدرسہ فیض الاسلام کے نام سے مدرسے کا اجراءکردیا گیا۔مولانا علی محمد سعیدی نے مسند تدریس بچھائی اور چند روز میں مقامی و بیرونی طلبا اچھی خاصی تعداد میں جمع ہو گئے۔ مولانا علی محمد سعیدی ہر مروجہ مضمون کی چھوٹی بڑی کتابیں پڑھاتے تھے۔1947ءتک سات سال اس گاؤں میں |