Maktaba Wahhabi

361 - 665
ان کا تعلیم و تدریس کا سلسلہ کامیابی سے جاری رہا۔ اس اثنا میں طلبا کو پتا چلا کہ مولانا علی محمد سعیدی کامیاب مدرس ہیں جو متداول نصاب کے ہرموضوع کی کتابیں پڑھانے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اگر مدرس اس قابلیت کا حامل ہوتو وہ طلبا کا مرکز توجہ قرارپا جاتا ہےاور وہ اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔ان سات سالوں میں متعدد طلبا نے ان سے حصول علم کیا جو آگےچل کر درس و تدریس کی مسندوں پر فائز ہوئے۔ 1940؁ءمیں مولانا علی محمد سعیدی کی شادی ان کےپہلے استاد صوفی ولی محمد کی بڑی صاحبزادی سے ہوئی۔ مولانا ممدوح اس وقت بالکل بے سروسامانی کی زندگی بسر کر رہے تھے جب کہ صوفی صاحب موصوف گاؤں کے نمبردار اور آسودہ حال تھے۔ انھوں نے مولانا کی صرف نیکی اور علمیت کو پیش نگاہ رکھا اور اپنی بیٹی ان کے عقد میں دے دی۔ آزادی برصغیر کے بعد مولانا علی محمد سعیدی اور صوفی ولی محمد پاکستان آئے اور میاں چنوں (ضلع خانیوال) سے چھ میل کے فاصلے پر چک نمبر7۔8اےآر کرملی والا میں سکونت اختیار کی۔ گھر کا سامان اور مدرسہ فیض الاسلام کا کتب خانہ وغیرہ انقلاب کی زد میں آگیا تھا۔ معاونین و متعلقین میں سے کچھ لوگ شہید ہو گئے اور کچھ بکھر گئے۔ لیکن مولانا علی محمد سعیدی یہاں آکر پھر مدرسے کے قیام کے لیے کوشاں ہوئے۔اب انھوں نے بیوی کا تھوڑا بہت بچا کھچا زیور فروخت کیا اور کچھ جگہ کا انتظام کیا اور 1947؁ء ہی میں جامعہ سعیدیہ کے نام سے تدریس کا آغاز کردیا۔پھر آہستہ آہستہ دو چارکچھ کمروں اور کچی مسجد کی تعمیر کی اور تھوڑے عرصے میں مدرسہ بہت اچھے پیمانے پر جاری ہو گیا۔ بعض قابل اساتذہ کی خدمات ھاصل کر لی گئیں اور طلبا کی تعداد سو تک پہنچ گئی۔ یہ بہت بڑا کام تھا جو مولانا ممدوح کی شب و روز کی بھاگ دوڑ اور مخلصانہ مساعی سے شروع ہوا اور پہلے کی طرح صوفی ولی محمد اس کی نگرانی کا فریضہ سر انجام دینے لگے۔ تعلیم و تعلم، درس و تدریس اور طلبا کی تعداد کے اعتبار سے مدرسے کا معاملہ بالکل ٹھیک تھا۔جماعت کے مشاہیر و کبار علمائے کرام کی آمد و رفت کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا تھا۔سالانہ امتحان کے لیے بھی مختلف مقامات کے ممتاز علما کو دعوت دی جاتی تھی اور وہ ازراہِ کرم تشریف لاتے تھے۔ مولانا علی محمد سعیدی کے استاد محترم حضرت مولانا ابو سعید شرف الدین صاحب(جن کے نام سے مدرسہ موسوم تھا)خاص طور سے تشریف لاتے تھے اور کئی کئی مہینے وہاں قیام فرماتے تھے۔صحیح بخاری کا درس بھی دیتے تھے اور اسی مدرسے میں قیام کے دوران وہ دیگر مدارس کے ارباب اہتمام کی دعوت پرامتحانات کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔مولانا علی محمد سعیدی محمد یوسف کلکتوی بھی مولانا
Flag Counter